’’اپنے رب کو عاجزی اور دل ہی دل میں آہستہ پکارا کرو کیونکہ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
۳۔ اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((سَیَکُوْنُ فِیْ ھٰذِہِ الاُمَّۃِ قَوْمٌ یَعْتَدُوْنَ فِی الدُّعَا وَالطُّھُوْرِ))
’’اس امت میں ایسے لوگ پیدا ہو جائیں گے کہ دعا اور طہارت میں حد اعتدال سے بڑھ جائیں گے۔‘‘
لیکن مصیبت یا خوف میں اپنے پیر سے استغاثہ کرنا اور یہ درخواست کرنا کہ اس حادثہ میں مرشد میرے دل کو ثابت اور برقرار رکھے یہ تو صاف شرک ہے اور دین نصاریٰ کی جنس سے اور یہ قسم اول ہے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے۔
یاد رکھنا چاہیے کہ رحمت کرنے والی صرف اللہ کی ذات ہے اور وہی ضرر دفع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
۱۔﴿وَ اِنْ یَّمْسَسْکَ اللّٰہُ بِضُرٍّ فَلَا کَاشِفَ لَہٗٓ اِلَّا ہُوَ وَ اِنْ یُّرِدْکَ بِخَیْرٍ فَلَا رَآدَّ لِفَضْلِہٖ ﴾ (یونس:۱۰۷)
’’اے پیغمبر! اگر تجھے اللہ کوئی ضرر پہنچائے تو یاد رکھو کہ اس ضررکو اس کے سوا کوئی دفع نہیں کر سکتا اور اگر بذات خود تجھے نیکی پہنچانے کا ارادہ کر لے تو اس کے فضل کو کون ہٹا سکتا ہے۔‘‘
۲۔﴿مَا یَفْتَحِ اللّٰہُ لِلنَّاسِ مِنْ رَّحْمَۃٍ فَلَا مُمْسِکَ لَہَا وَ مَا یُمْسِکْ فَلَا مُرْسِلَ لَہٗ مِنْ بَعْدِہٖ ﴾ (فاطر:۲)
’’اپنی رحمت کا دروازہ اگر اللہ خود ہی لوگوں کے لیے کھولے تو اسے کوئی بند کرنے والا نہیں ، اور بند کر دے تو پھر کوئی اسے کھول نہیں سکتا۔‘‘
۳۔﴿قُلْ اَرَئَ یْتَکُمْ اِنْ اَتٰکُمْ عَذَابُ اللّٰہِ اَوْ اَتَتْکُمُ السَّاعَۃُ اَغَیْرَ
|