Maktaba Wahhabi

148 - 485
اسی طرح امیر المومنین معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما نے یزید بن اسود جرشی کو امام بنا کر استسقاء کیا اور کہا: ((اَللّٰہُمَّ اِنَّا نَسْتَشْفَعُ اِلَیْکَ بِخِیَارِنَا یَایَزِیْدُ ارْفَعْ یَدَیْکِ اِلیٰ اللّٰہِ۔)) ’’مولیٰ ہم تیرے سامنے اپنے بہترین آدمیوں کو شفیع لاتے ہیں ۔ اے یزید اللہ کے آگے دعا کے لیے ہاتھ اٹھاؤ۔‘‘ تو انہوں نے ہاتھ اٹھا کر دعا کی اور سب لوگوں نے دعا کی تو خدائے تعالیٰ نے باران رحمت نازل کی۔ لہٰذا علماء کے نزدیک متقی اور صلحاء سے دعائے باراں کرانا مستحب ہے اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت سے ہوں تو سب سے بہتر ہے لیکن کسی عالم نے نہیں کہا کہ کسی نبی یا صالح کی موت کے بعد یا ان کی غیبت میں استسقاء یا دشمن پر فتح چاہیے اور کسی دعا میں ان سے توسل کرنا مشروع ہے اور نہ علماء میں سے کسی نے اس کو مستحب کہا اور دعا ہی تو عبادت کا مغز ہے اور عبادت کی بنا سنت اور اتباع نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر ہے نہ کہ خواہشات اورمن گھڑت طریقے نکالنے پر۔ اللہ کی عبادت وہی ہے جو مشروع طریق پر ہو اور جو خواہشوں اور بدعتوں سے عبادت کی جاے وہ اللہ کی عبادت نہیں ہوتی چنانچہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ۱۔﴿اَمْ لَہُمْ شُرَکَائُ شَرَعُوْا لَہُمْ مِّنْ الدِّیْنِ مَا لَمْ یَاْذَنْ بِہٖ اللّٰہُ﴾ (الشوریٰ :۲۱) ’’کیا ان لوگوں نے اللہ کے سوا شریک ٹھہرا رکھے ہیں اور انہوں نے ان کے لیے دین کا ایک راستہ ٹھہرایا ہے جس کا اللہ نے حکم نہیں دیا۔‘‘ ۲۔﴿اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ﴾ (الاعراف:۵۵)
Flag Counter