Maktaba Wahhabi

147 - 485
مسجد نبوی میں آیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ پڑھ رہے تھے۔ اس شخص نے سامنے کھڑے ہو کر عرض کیا یا رسول اللہ مال ہلاک ہو گئے راستے بند ہو گئے، دعا فرمایے بارش تھم جائے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا کے لیے ہاتھ اٹھائے اور کہا مولیٰ بارش کو تھام لے۔ ہمارے ٹیلوں پر، پہاڑوں کی چوٹیوں پر، وادیوں اور درختوں کی جڑوں میں بارش بھیج۔ راوی کا بیان ہے کہ بارش فوراً تھم گئی جب ہم مسجد سے نکلے تو دھوپ میں چل رہے تھے۔ پس اس حدیث میں ہے کہ اس شخص نے کہا : ((اُدْعُ اللّٰہُ لَنَا اَنْ یَمْسَکَھَا عَنَّا۔)) ’’دعا فرمایے بارش تھم جائے۔‘‘ اس سے یہی ثابت ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی التماس کی جاتی تھی اور یہی ان کا توسل تھا۔ بخاری نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت کی ہے کہ وہ کہتے تھے ’’مجھے ابو طالب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے والد کا قول یاد آتا ہے جو آپ کی تعریف میں کہا: ((وَاَبْیَضُ یُسْتَسْقیَ الْغَمَامُ بِوَجْھَہٖ ثَمَالُ الْیَتَامیٰ عُصْمَۃُ لِلْاَرْمِلِ۔)) ’’یعنی روشن چہرہ والا جس کی وجاہت کے طفیل بارش کے لیے دعا کی جاتی ہے۔ یتیموں کی جائے پناہ، رانڈوں کا ملجا و ماویٰ ہے۔‘‘ پس آپ کے حین حیات میں استسقاء کے لیے اس قسم کا توسل کیا جاتا تھا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی التماس کرتے اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اسی طرح حضرت عباس رضی اللہ عنہ سے استدعا کی گئی۔ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یا آپ کے غائب ہونے کی صورت میں یا آپ کی مرقد مبارک کے پاس جا کر آپ کا توسل نہیں کیا گیا اور نہ کسی اور کی قبر کے پاس کسی نے جا کر استسقاء کیا۔
Flag Counter