مَا حَقُّ الْعِبَادِ عَلیَ اللّٰہِ اِذَا فَعُلُوْا ذَالِکَ فَاِنَّ حَقَّھُمْ عَلَیْہِ اَنْ لَّا یُعَذِّبْھُمْ۔))
’’معاذ! جانتے ہو کہ بندوں پر اللہ کے کیا حقوق ہیں ؟معاذ رضی اللہ عنہ نے عرض کیا اللہ اور اس کا رسول بہترجانتے ہیں ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بندوں پر اللہ کا حق ہے کہ وہ اس کی بندگی کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں ۔ پھر پوچھا: کیا جانتے ہو جب بندے حقوق اللہ اداکریں تو اللہ پر ان کے حقوق کیا ہیں ؟ فرمایا: اللہ تعالیٰ پر بندوں کا حق یہ ہے کہ اللہ ان کو عذاب سے بچالے۔‘‘
اور بعض احادیث میں حقوق کے متعلق ذرا تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے۔ مثلاً آپ نے فرمایا: شارب خمر کی چالیس روز نماز قبول نہیں ہوتی اگر وہ توبہ کرے تو اللہ اس کو معاف کر دیتا ہے۔ اگر وہ تیسری یا چوتھی مرتبہ باز نہ آئے تو اللہ پر لازم ہے کہ اس کو’’طینۃ الخبال‘‘ پلائے۔ پوچھا گیا ’’طینۃ الخبال‘‘ سے کیا مراد ہے؟‘‘ فرمایا:’’ا ہل دوزخ کی پیپ۔‘‘
ایک جماعت علماء کی کہتی ہے کہ اس سے موت کے بعد توسل کا جواز ثابت نہیں ہوتا بلکہ فقط آپ کی زندگی میں آپ کے سامنے توسل کا جواز ثابت ہوتا ہے جیسا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی امامت میں نماز استسقاء ادا کرنا اور یوں کہنا خدایا! عہد رسالت صلی اللہ علیہ وسلم میں تیرے رسول کے وسیلے سے تجھ سے باران رحمت کے طالب ہو تے تھے آج ہم تیرے رسول کے چچا کے وسیلے سے دعا مانگتے ہیں ، ہم پر باران رحمت بھیج۔
پس حضرت فاروق اعظم رضی اللہ عنہ نے بیان کر دیا کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں ایسا توسل کرتے تھے اور بارش ہو جاتی تھی اور توسل کی صورت یہ تھی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دعا کی درخواست کرتے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم دعا فرماتے اور صحابہ رضی اللہ عنہم خود بھی شریک دعا ہوتے اور آپ کی شفاعت اور آپ کی دعا کا وسیلہ پکڑتے تھے۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک شخص جمعہ کے دن
|