صلوٰۃ بھیجتا ہے پھر میرے لیے وسیلہ طلب کرے جو جنت میں ایک اعلیٰ مقام ہے اور ضروری ہے کہ اللہ کے بندوں میں سے ایک ہی بندہ کو حاصل ہو اور امید ہے کہ میں ہی اس اعلیٰ مقام پر ممتاز ہونے کا مستحق ہوں گا۔ پس جو میرے لیے وسیلہ کا طالب ہو گا قیامت کے دن وہ میری شفاعت کا مستحق ہو گا۔‘‘
اور شرعاً ارفع و اعلیٰ دونوں سے التجا دعا ہو سکتی ہے چنانچہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو عمرہ کے دن وداع کرتے وقت فرمایا:
((لَا تَنْسَنَا مِنْ دُعَائِکَ یَا اَخِیْ۔))
’’یعنی بھائی ہمیں بھول نہ جانا، دعا سے یاد رکھنا۔‘‘
لیکن اس میں ہمارا ہی فائدہ پیش نظر ہے کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد کہ مجھ پر صلوٰۃ بھیجو اور میرے لیے وسیلہ طلب کرو اور ساتھ ہی یوں فرمانا کہ مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجنے والے پر اللہ تعالیٰ دس مرتبہ صلوٰۃ بھیجتا ہے اور جومیرے لیے وسیلہ کا طالب ہو گا وہ شفاعت کا مستحق ہو گا صاف بتا رہا ہے کہ مطلوب عنہ کے فائدے کی غرض سے اسی سے کسی شے کا طالب ہو نا اور فقط اپنے ذاتی فوائد کی خاطر دوسرے سے طلب کرنا دو مختلف الحقیقت چیزیں ہیں ۔
۱۔ صحیح بخاری میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اویس قرنی کا ذکر کرتے ہوئے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا کہ اگر تجھ سے ہو سکے تو اپنے لیے اس سے دعائے مغفرت کرانا۔
((اِنِ اسْتَطَعْتَ اَنْ یَسْتَغْفِرْلَکَ فَافْعَلْ))
۲۔ صحیحین میں ہے کہ ابو بکر و عمر رضی اللہ عنہما میں کسی بات پر تنازع ہو گیا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا مجھے معاف کیجیے (اِسْتَغْفِرْلِیْ) لیکن ایک روایت میں یوں بھی آیا ہے کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر ناراض ہوئے ۔
۳۔ یہ بھی ثابت ہے کہ بعض لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے استرقاء کرتے تھے تو آپ ان کے لیے رقیہ کر دیتے۔
|