۴۔ صحیحین میں ثابت ہے کہ امساک باراں میں آپ سے استسقاء کے لیے درخواست کی گئی۔ آپ نے دعا کی اور بارش ہوئی۔
۵۔ صحیحین کی روایت ہے کہ آپ کے بعد حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ کی امامت میں دعائے استسقاء کی اور یوں کہا:مولیٰ! عہد نبوی میں ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توسل سے دعائے باراں کیا کرتے تھے آج ہم تیرے رسول کے چچا کو وسیلہ پکڑتے ہیں تو ہم پر باراں رحمت بھیج: ((اَللّٰہُمَّ اِنَّا کُنَّا اِذَا اَجْدَیْنَا نَتَوَسَّلْ بِنَبِیِّنَا فَتَسْقِیْنَا وَاَنَا نَتَوَسَّلَ اِلَیْکَ بِعَمِّ نَبِیِّنَا فَاسْقِنَا فَسُقُوْا۔))
۶۔ جب ایک نے جان و مال کی ہلاکت اور اہل و عیال کی بھوک اور مصیبت کی شکایت کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا حضور! دعا فرمایے ہم آپ کے حضور میں خدائے تعالیٰ کو بطور شفیع لاتے ہیں اور اس کی جناب میں آپ ہمارے شفیع ہیں ، ((فَاِنَّا نَسْتَشْفِعْ بِاللّٰہِ عَلَیْہِ وَبِکَ عَلیٰ اللّٰہِ))تو چہرۂ مبارک پر خفگی کے آثار نمودار ہوئے اور خدائے واحد کی کبریائی بیان کرتے ہوئے اعرابی سے فرمایا: تیرا بھلا ہو اللہ تعالیٰ کو اس مخلوق میں سے کسی کے پاس بطور سفارشی کے مقرر نہیں کیا جاتااس کی شان اس سے کہیں اعلیٰ و ارفع ہے۔(وَیْحَکَ اِنَّ اللّٰہَ لَا یسْتَطِیْعُ بَہٖ عَلیٰ اَحَدٍ مِنْ خَلْقِہٖ شَانُ اللّٰہُ اَعْظَم ُ مِنْ ذَالَکَ)۔
پس آپ نے اس کے قول ((اِنَّا نَسْتَطِیْعُ بِک عَلیٰ اللّٰہِ )) کو برقرار اور جائز رکھا لیکن کسی بندے کے پاس ذات واحد کے شفیع لانے سے انکار فرمایا اور اسے جائز نہ رکھا کیونکہ شافع مشفوع سے سوال کرتا ہے اور بندہ اس کی جناب میں سائل ہے اور اس سے اللہ کے پاس سفارش کرائی جاتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کسی بندے سے کسی چیز کا سائل نہیں اور اس سے سفارش کرائی جاتی ہے۔
|