کے حلق سے آگے نہ بڑھے گا اسلام سے اس طرح نکل جائیں گے جس طرح چلہ سے تیر، جہاں کہیں انہیں پاؤ قتل کرو کیونکہ ان کے قتل میں اللہ کے ہاں قاتل کے لیے قیامت کے دن ثواب ہے۔‘‘
اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ ظواہر کے ساتھ ان میں احوالِ باطنہ بھی پائے جاتے ہیں ، لیکن ان میں ظواہر و بواطن کی وجہ سے انہیں اولیاء اللہ سمجھ لینا غلط ہے کیونکہ ولی صرف وہی ہو سکتا ہے جو ﴿الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ کَانُوْا یَتَّقُوْنَ﴾ (یونس: ۶۳) ’’جو ایمان لائے اور پرہیزگار رہے‘‘ کے زمرہ میں ہو، اگرچہ ظاہر و باطن میں اسے قدرت و تمکن نہ بھی حاصل ہو کیوں کہ ولایت کے لیے قدرت و تمکن لازم نہیں ۔ ولی اللہ کبھی صاحبِ قوت و شوکت ہوتا ہے اور کبھی ضعیف و کمزور، یہاں تک کہ اللہ کی نصرت آکر اس کے ضعف کو قوت سے بدل دے۔ اسی طرح عدو اللہ کبھی کمزور ہوتا ہے اور کبھی زبردست،یہاں تک کہ اللہ کا دستِ انتقام دراز ہو اور اس کے پر نخوت سر پر ذلت کی خاک پڑجائے، پس تاتاریوں کے باطنی خضراء اسی جنس سے ہیں جس جنس سے ان کے ظاہری خضراء ہیں ۔ رہا غلبہ تو وہ ہمیشہ دلیلِ حق نہیں ، خدا کبھی مومنوں پر کفار کو غالب کرتا ہے اور کبھی مومن کافروں پر فتح یاب ہوتے ہیں جیسا کہ اصحاب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے دشمنوں سے حال تھا۔ لیکن نتیجہ میں کامیابی بہرحال متقین ہی کے لیے ہے۔ کیونکہ اللہ نے فرما دیا ہے:
﴿اِِنَّا لَنَنْصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ﴾ (المومن:۵۱)
’’ہم اپنے رسولوں پر اور مومنین کو دنیاوی زندگی میں اور حاضر ہونے کے دن مدد دیں گے۔‘‘
اگر مسلمان کمزور ہوں اور کافر زبردست تو سمجھ لینا چاہیے کہ یہ کمزوری و پستی مسلمانوں کے کفران و عصیان کا نتیجہ ہے جیسا کہ اللہ نے فرمایا ہے:
|