لیکن اس پر کفارۂ یمین ہے جیسا کہ حدیث میں وارد ہے:
((لَا نَذَرَ فِیْ مَعْصِیَۃٍ وَکَفَّارَتُہٗ کَفَّارَۃٌ یَمِیْنٌ)) (احمد و اصحاب سنن عن عائشۃ)
’’معصیت میں نذر نہیں اور اس کا کفارہ قسم کا کفار ہ ہے۔‘‘
لیکن بعض ایسی نذر ماننے والے پر کوئی کفارہ بھی واجب نہیں ٹھہراتے اور صرف توبہ و استغفار کو کافی سمجھتے ہیں ۔ بہتر یہ ہے کہ جتنی نذر مانی ہو اسی قدر جائز و مشروع کاموں میں صرف کر دیا جائے مثلاً اگر روشنی کی نذر ہے تو اس کا تیل مساجد کی روشنی میں صرف کر دے، اگر نقد کی نذر ہے تو اسے غریب مسلمان خواہ پیر یا پیر کے عزیز ہی کیوں نہ ہوں ۔ یہ حکم عام ہے کسی قبر کی طرف رجوع کرنا جائز نہیں نہ سیدہ نفیسہ کی قبر کی طرف اور نہ نفیسہ سے بڑوں کی قبر کی طرف عام اس سے کہ صحابہ رضی اللہ عنہم ہوں مثلاً حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ و زبیر رضی اللہ عنہ و غیرہ جن کی قبریں بصرہ میں ہیں ، یا حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہ وغیرہ جو عراق میں دفن ہیں یا اہلِ بیت ہوں مثلاً وہ قبریں جو حضرت علی رضی اللہ عنہ اور ان کے خاندان امام حسین رضی اللہ عنہ ، موسیٰ کاظم، جعفر صادق وغیرہ کی طرف منسوب ہیں ، یا صالحین ہوں مثلاً معروف کرخی، احمد بن حنبل وغیرہ کی قبریں ۔
اور جو کوئی یہ اعتقاد رکھتا ہے کہ قبروں سے نذر ماننے سے کسی قسم کا بھی کوئی نفع یاثواب حاصل ہوتا ہے تو گمراہ اور جاہل ہے، کیونکہ حدیث صحیح میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے منت سے منع کیا ہے اور فرمایا:
((اِنَّہٗ لَا یَأْتِیْ بِخَیْرٍ وَّاِنَّمَا یُسْتَخْرَجُ بِہٖ مِنَ الْبَخِیْلِ))
’’اور اس سے کچھ بھی نہیں ہو تا، صرف بخیل سے مال نکلوانے کا ذریعہ ہے۔‘‘
دوسری روایت میں ہے:
((اِنَّمَا یُلْقَی ابْنَ اٰدَمَ اِلَی الْقَدْرِ))
’’ابن آدم تقدیر کے سامنے ڈال دیا جاتا ہے۔‘‘
|