اور فرمایا:
((اَللّٰہُمَّ لَا تَجْعَلْ قَبْرِیْ وَثْنًا یُّعْبَدُ بَعْدِیْ ۔)) [1] (رواہ مالک فی موطأ)
’’خدایا میری قبر کو بت نہ بناکہ میرے بعد پوجی جائے۔‘‘
تمام ائمہ دین متفق ہیں کہ قبروں پر مساجد کا بنانا، پردوں کا لٹکانا، ان سے منتیں ماننا، ان کے نزدیک سونا چاندی رکھنا ناجائز ہے۔ اور اس قسم کے مال کا حکم یہ ہے کہ اسے لے کر مسلمانوں کے قومی کاموں میں صر ف کر دیا جائے اگر اس کا کوئی معین مستحق نہ ہو پھر اس پر بھی سب کا اتفاق ہے کہ وہ تمام مسجدیں ڈھا دی جائیں جو قبروں پر بنائی گئی ہیں ، عام اس سے کہ کسی کی قبر کیوں نہ ہو کیونکہ یہ اسباب بت پرستی میں سے ایک بہت بڑا سبب ہے۔ فرمایا:
﴿وَقَالُوْا لَا تَذَرُنَّ اٰلِہَتَکُمْ وَلَا تَذَرُنَّ وَدًّا وَّلَا سُوَاعًا وَّلَا یَغُوْثَ وَیَعُوْقَ وَنَسْرًا ﴾ (نو ح:۲۳)
’’انہوں نے کہا کہ نہ ود کو نہ سواع کو نہ یغوث ویعوق و نسر کو چھوڑنا، اور انہوں نے بہتوں کو گمراہ کیا ہے۔‘‘
علمائے سلف میں ایک جماعت کا خیال ہے کہ ود، سواع و یغوث وغیرہ صالح لوگوں کے نام ہیں ، جب یہ مر گئے تو لوگوں نے ان کی قبریں بنائیں ، ان کی تعظیم کی۔ ہوتے ہوتے عبادت کرنے لگے، نیز ائمہ کا اتفاق ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((مَنْ نَذَرَ اَنْ یُّطِیْعَ فَلْیُطِعْہُ وَمَنْ نَذَرَ اَنْ یَّعْصَی اللّٰہَ فَلَا یُعْصِیْہٖ)) (بخاری و احمد و السنن الاربعۃ)
’’جس نے اللہ کی اطاعت کے لیے منت مانی،اطاعت کرے اور جس نے اللہ کی نافرمانی کے لیے مانی ہرگز نافرمانی نہ کرے۔‘‘
|