ہو جائے تو آپ دیکھیں گے کہ یہ کس قدر ظالم و سنگدل اور بے رحم و بے مروت ہیں جو زبان پر عفوو درگزر کا نام لانا بھی ناگوار سمجھتے ہیں ۔
چنانچہ اہل اسلام نے ہر شخص میں جو حقائق ایمانیہ سے زیادہ بعید ہو، تجربہ و مشاہدہ کر لیا ہے، مثلاً قومِ تاتار جس سے اہل اسلام کی بارہا لڑائیاں ہو چکی ہیں ، یا دیگر اقوام میں سے جو اکثر امور میں ان سے مشابہت رکھتا ہو، خواہ وہ اپنے آپ کو لشکرِ اسلامی کی وردی میں ظاہر کرے یا علمائے اسلام و زہادِ اسلام کے بھیس میں ، اورخواہ وہ خود کو مسلمان تاجر کہلائے یا مسلم کاریگر۔ لہٰذا اعتبار حقائق کا ہوتا ہے (ظاہر کا نہیں )۔ چنانچہ حدیث شریف میں ہے:
((اِنَّ اللّٰہَ لَا یَنْظُرُ اِلیٰ صُوَرِکُمْ وَلَا اِلیٰ اَمْوَالِکُمْ وَاِنَّمَا یَنْظُرُ اِلیٰ قُلُوْبِکُمْ وَاَعْمَالِکُمْ۔))
’’خدا تمہارے حسن و جمال اور مال ودو لت کو نہیں دیکھتا۔ وہ تو حسنِ اعمال اور تقویٰ القلوب کو دیکھتا ہے۔‘‘
یہی وجہ ہے کہ جس کا دل اورعمل تاتاریوں کے دل اور عمل کی جنس کا ہو گا وہ اس حیثیت سے ان کا مشابہ ہو گا اور اس میں صرف اسی قدر اسلام ہو گا جتنا تاتاریوں سے ظاہر ہوتاہے۔
بلکہ تاتاریوں کے مقابل آپ کو غیر تاتاریوں میں جو جہاد بھی کرتے ہیں اور کسی نہ کسی موقع پر اپنے اسلام کا اظہار بھی کیے دیتے ہیں ،بہت بڑے مرتد، جاہلانہ عادات کے زیادہ قریب اور اخلاق اسلامیہ سے زیادہ بعید لوگ بھی مل جائیں گے۔ صحیح بخاری میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم خطبہ میں یوں ارشاد فرماتے:
((خَیْرُ الْکَلَامُ کَلَامُ اللّٰہِ وَخَیْرُ الْھَدْیِ ھَدْیُ مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْاُمُوْرِ مُحْدَثَاتُھَا وِکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ۔))
’’سب سے بہتر کلام، کلام اللہ ہے، سب سے بہتر ہدایت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت ہے،سب سے بری چیز بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
|