ہم اصول میں کہہ چکے ہیں کہ نصوص نے تمام شرعی احکام کی وضاحت کر دی ہے۔
جب ہمیں معلوم ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اگر کسی چیز کو حرام نہیں کہا ہے نہ اسے واجب کیا ہے تو اس سے معلوم ہو گیا کہ نہ وہ حرام ہے نہ واجب اور یہ کہ اس کے وجوب یا تحریم کو ثابت کرنے والا قیاس فاسد ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ کتاب و سنت میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جو ان چیزوں کے روزہ توڑ دینے پر دلالت کرتی ہو۔ اس سے خود بخود یہ بات نکلتی ہے کہ یہ چیزیں روزہ کو نہیں توڑتی ہیں ۔
دوسرا سبب یہ ہے کہ جن احکام کی معرفت امت کے لیے ضروری تھی ان کی عام وضاحت رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے نا گزیر تھی اور ضروری تھا کہ امت اسے نقل کرے۔ جب ایسی بات نہیں ہے تو معلوم ہوا کہ یہ دین میں شامل نہیں ہے اور اس کی تفصیل یہ ہے کہ جیسا کہ معلوم ہے رمضان کے علاوہ کسی اور مہینے میں روزہ رکھنا فرض نہیں قرار دیا گیا۔ بیت الحرام کو چھوڑ کر کسی اور گھر کا قصد کرنا واجب نہیں ہے۔رات اور دن میں صرف پانچ وقت کی نمازیں فرض ہیں ۔محض عورت کی ملاقات کی وجہ سے(مباشرت اور انزال کے بغیر) غسل کو واجب نہیں کیا گیا نہ بڑی گھبراہٹ اور خوف کی وجہ سے وضو کو واجب کیا گیا ہے ( اگرچہ خروج کا اندیشہ رہتا ہے)۔ نہ صفا و مروہ کے درمیان سعی کے بعد دو رکعتیں مسنون قرار دی گئیں جس طرح کہ بیت اللہ کا طواف کرنے کے بعد دو رکعتوں کی ادائیگی مسنون ہے۔
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ منی نجس نہیں ہے، اس لیے کہ اس سلسلے میں کسی سے کوئی ایسی سند منقول نہیں ہے جس سے استدلال کیا جا سکے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمان کو منی سے اپنے بدن اور کپڑے دھونے کا حکم دیا ہو اگرچہ اس کی عام ضرورت پیش آتی رہتی ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حائضہ عورت کو حکم دیا چونکہ ضرورت کم ہی پڑتی ہے اس لیے حیض سے اپنی قمیص دھو لے بلکہ مسلمانوں کو یہ حکم نہیں دیا ہے کہ منی سے اپنے کپڑوں اور جسموں کو صاف کر لیں ۔
وہ حدیث جسے بعض فقہاء نے روایت کیا ہے کہ ’’پیشاب، پاخانہ، منی، مذی، اور خون
|