لوگ ہو سکتے ہیں جو ایمان لائے ہیں اور پرہیز گاری ان کا شعار ہے۔
ظاہری وباطنی قوت و اقتدار ولایت کے لیے لازم نہیں ہے کبھی ولی اللہ کو یہ دونوں اقتدار حاصل ہوتے ہیں اور کبھی وہ کمزور ہوتا ہے، یہاں تک کہ اللہ اسے غالب کر دے۔ اسی طرح اللہ کا دشمن کبھی کمزور ہوتا ہے اور کبھی طاقت ور ہوتا ہے،یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ اس سے انتقام لے لے۔ اور کبھی کفار کو مومنین پر غلبہ بھی حاصل ہو جاتا ہے جیسا کہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب کو کئی مرتبہ مغلوب ہو جانا پڑا تھا لیکن نتیجہ ہمیشہ متقین ہی کے حق میں بہتر ہوتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اِِنَّا لَنَنصُرُ رُسُلَنَا وَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فِی الْحَیَاۃِ الدُّنْیَا وَیَوْمَ یَقُوْمُ الْاَشْہَادُ﴾ (المؤمن:۵۱)
’’بے شک ہم اپنے رسولوں اور مومنوں کی مدد کریں گے دنیا میں بھی اور قیامت کے دن بھی۔‘‘
جب مسلما ن کمزور ہو تے ہیں اور دشمن ان پر غالب ہوتا ہے تو اس کی وجہ خود مسلمانوں کے اپنے قصور اورگناہ ہوتے ہیں جو واجبات کی ادائیگی میں ظاہراً و باطناً کوتاہی کرتے ہیں اور ظاہری و باطنی آپس کی عداوت انہیں کمزور کر ڈالتی ہے۔
قرآ ن میں ہے:
﴿اِنَّ الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا مِنْکُمْ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ اِنَّمَا اسْتَزَلَّہُمُ الشَّیْطٰنُ بِبَعْضِ مَا کَسَبُوْا﴾ (آل عمران:۱۵۵)
’’مقابلہ کے دن تم میں سے جن لوگوں نے پیٹھ پھیر لی تھی، انہیں تھوڑے سے نفع پر شیطان نے بھٹکا دیا تھا۔‘‘
اور فرمایا:
﴿اَوَ لَمَّآ اَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَدْ اَصَبْتُمْ مِّثْلَیْہَا قُلْتُمْ اَنّٰی ہٰذَا قُلْ
|