شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ایک دوسرے مقام پر مسئلہ سماع کے متعلق احادیث و آثار جمع کرنے والوں کا ذکر کر کے فرماتے ہیں :
اکثر متاخرین اہل حدیث واہل زہد و اہل فقہ واہل تصوف کی عادت ہے کہ جب وہ کسی مسئلے میں کوئی کتاب لکھتے ہیں تواس میں بلا امتیاز صحیح اور غلط سب کچھ درج کر جاتے ہیں ۔ چنانچہ جن لوگوں نے مہینوں ، وقتوں ، اعمال، عبادات، فضائل اور اشخاص وغیرہ مباحث پر کتابیں لکھی ہیں ان کا یہی حال ہے، اسی طرح بعض لوگوں نے رجب وغیرہ کے روزے، خاص خاص دنوں کی نمازوں ، مثلاً اتوار کی نماز، دو شنبہ کی نماز، سہ شنبہ کی نماز،رجب کے پہلے جمعہ کی نماز، نصف شعبان کی نماز، عیدین کی دونوں راتوں کی شب بیداری اور یوم عاشورہ کی نماز وغیرہ امورپر رسائل اور کتابیں لکھی ہیں حالانکہ ان کی درج کردہ احادیث بالاتفاق اہل حدیث، موضوع اور جھوٹی ہیں ۔
رجب کے روزے کی نسبت سب سے زیادہ مستند حدیث وہ ہے جو ابن ماجہ نے روایت کی ہے مگر اس میں صاف وارد ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رجب کے روزے سے منع فرمایا ہے،نیز ثابت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ رجب کے مہینے میں روزہ رکھنے والوں کو اپنے درے سے مارتے تھے اور انہیں روزہ افطار کرنے پر مجبور کرنے پر مجبور کر دیا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ رجب کو رمضان کے مشابہ نہ بناؤ۔
مذکورۂ بالا نمازوں کے بارے میں سب سے بہتر حدیث وہ ہے جو صلوٰۃِ تسبیح کے متعلق وارد ہے، ابوداؤد اور ترمذی وغیرہ نے اسے روایت کیا ہے، لیکن ائمہ اربعہ میں سے کسی نے بھی اس کے مطابق فتویٰ نہیں دیا بلکہ امام احمد رحمہ اللہ نے اس کو ضعیف کہا ہے اور صاف کہہ دیا ہے کہ یہ حدیث صحیح نہیں ہے۔
ابن مبارک رحمہ اللہ سے اس نماز کے متعلق ایک ایسا قول مروی ہے جس سے وہ فرض نماز کے درجے میں آجاتی ہے لیکن اہل علم جانتے ہیں کہ یہ تمام آثار و احادیث موضوع اور سراسر
|