اسی طرح ان لوگوں کا یہ استدلال بھی غلط ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اچھی آواز پسند فرمائی تھی، جیسا کہ ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کی حدیث میں گزر چکا ہے۔اس غلط استدلال سے کام لے کر انہوں نے عورتوں اور بے ریش لڑکوں کی آواز اور طبلہ و سارنگی پر گانے کو مباح سمجھ لیا ہے۔ حالانکہ اس قسم کے اشعار اور گانوں میں محبوب کے قد، دہن، سینے کے ابھار اور پتلی کمر، پُر فسوں آنکھوں ، لمبے کالے بالوں ،جوانی کی بہار، نازک گلابی رخساروں ،وصل، بے پروائی، ظلم، فراق، عتاب، شوق، قلق، غرض کہ اس قسم کی باتوں کا ذکر ہوتا ہے جو قلب کو شراب کے نشے سے بھی زیادہ بگاڑ دیتی ہیں ۔ کہاں ایک دن کا ناپائدار نشہ اور کہاں حقیقی محبت کا دائمی رد عمل کہ جس کا متوالا اگر ہوشیار ہوتا ہے تو ہلاک ہو چکنے کے بعد بھی ہوشیار ہوتا ہے۔ سماع کا نشہ معلوم ہے کہ شراب کے نشے سے زیادہ سخت ہوتا ہے، اس سے انکار کرنا ذوق و احساس سے انکار کرنا اور حقیقت کو جھٹلانا ہے۔ اگر طبیب مریض کو معمولی بدپرہیزیوں سے منع کرتا ہے تو ظاہر ہے کہ وہ بڑی بدپرہیزیوں کی اجازت نہیں دے سکتا۔
یہ کہنا اور بھی مضحکہ انگیز ہے کہ فلاں فلاں ولی اللہ نے ایسا کیا ہے۔اگر یہ صحیح ہو تو دوسرے بکثرت اولیاء نے اس کی مذمت بھی کی ہے اور ایک ولی اللہ دوسرے ولی اللہ پر اعتراض کر سکتا ہے، اولیاء اللہ میں باہم جنگ بھی ہو چکی ہے اور جنگ صفین میں جب طرفین کی فوجیں بڑھیں تو لوگوں نے کہا کہ جنتی جنتیوں سے لڑنے چلے ہیں ! اگر ولی اللہ کسی مکروہ و ممنوع فعل کا مرتکب ہو تو اس پر اعتراض کیا جا سکتا ہے۔ ایسے ہفوات سے ولی اللہ اپنی ولایت سے محروم نہیں ہو جاتا۔ پھر یہ ہرگز ثابت نہیں کہ اولیائے سلف میں سے کسی نے بھی ایسے بدعتی سماع میں شرکت کی جو دلوں کو شدید ترین فتنوں میں مبتلاکر دیتا ہے۔
نوٹ:… ولی اللہ ہوتا ہی وہی ہے جو اللہ تعالیٰ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا پابند ہو۔ قرآن حکیم میں اس کی وضاحت موجود ہے۔
|