’’مجھے دو احمقانہ فاجر آوازوں سے منع کیا گیا ہے: لہو و لعب اور شیطانی باجوں کی آواز سے اور منہ پیٹنے، گریبان پھاڑنے اور تالیوں اور سیٹیوں والی جاہلیت کی پکار (عبادت) کی آواز سے۔‘‘
شیطان ان گمراہوں پر کچھ اس طرح چھا جاتا ہے کہ وہ گانا سنتے سنتے مست ہو جاتے ہیں اور ناچنے کودنے لگتے ہیں ۔
ان معاملات میں اسرار و حقائق [1] ہیں جنہیں اہلِ بصائر ایمانیہ و مشاہد ایقانیہ ہی مشاہد کر سکتے ہیں ۔ لیکن شریعت کی راہ بالکل روشن اور صاف ہے۔ جس کسی نے اس کی اتباع کی اور بدعت کی بھول بھلیوں سے اجتناب کیا، ہدایت یاب اور دنیا وآخرت کی فلاح سے شاد کام ہو گیا۔ اگرچہ وہ اسرار و حقائق کے ادراک سے بالکل محروم ہی کیوں نہ رہ گیا ہو۔ اس کی مثال اس شخص کی سی ہے جو مکہ کی راہ پر رہنما کے پیچھے جاتا ہے،راستہ میں ہر جگہ کھانا پانی پاتا ہے اگرچہ نہیں جانتا کہ یہ سامان وہاں کیونکر مہیا ہوا پھر منزلِ مقصود پر پہنچتا اور حج کی سعادت حاصل کرتا ہے۔ برخلاف اس کے وہ ہے جو رہبر لیے بغیر نکل کھڑا ہوا۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ راستہ بھول جاتا ہے، پھر یا تو وہ ہلاک جاتا ہے یا ایک مدت تک شقاوت و بدبختی کی وادیوں میں ٹھوکریں کھانے کے بعد راستہ پر آجاتا ہے، رہنمائے حق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں ، جنہیں اللہ نے دنیا بھر کے لیے بشیر و نذیربنا کر بھیجا، انہوں نے اس کے حکم سے حق کی دعوت دی، صراط مستقیم کی طرف رہنمائی کی، اور گمراہی کی راہوں پر پڑنے سے روک دیا، جو لوگ اس کی پیروی کرتے ہیں ، نجات پاتے ہیں اور جو خود سری سے اعراض کرتے ہیں ہلاک ہو تے ہیں ۔
رہے یہ گانے بجانے والے نام نہاد صوفی تو ان پر شیطان کے پھیرے کی علامتیں ہمیشہ ظاہر ہوجاتی ہیں ، چنانچہ ان کے منہ سے کف اڑتا ہے، درشت آوازیں نکلتی ہیں ، خوفناک چیخیں بلند ہو تی ہیں ۔ آوازوں کا اختلاف ان شیطانی مقاصد کے اختلاف کی وجہ سے ہو تا ہے
|