’’لوگوں پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ وہ نہ نماز جانیں گے نہ روزہ، نہ حج نہ عمرہ بجز بوڑھوں اور بوڑھیوں کے جو کہیں گے ہم نے اپنے بزرگوں کو لا الٰہ الا اللہ کہتے سنا ہے۔‘‘
اس پر حضرت حذیفہ بن یمان رضی اللہ عنہ سے سوال کیا گیا’’وَمَا تُغْنِیْ عَنْھُمْ لَا اِلٰہَ اِلاَّ اللّٰہُ؟ لا الہ الا اللہ سے انہیں کیا فائدہ ہو گا؟ فرمایا: تُنْجِیْھِمْ مِنَ النَّارِ، تُنْجِیْھِمْ مِنَ النَّارِ،تُنْجِیْھِمْ مِنَ النَّارِ، ’’انہیں دوزخ سے بچائے گا دوزخ سے بچائے گا، دوزخ سے بچائے گا۔‘‘
اصل اس باب میں یہ ہے کہ ہر وہ قول جو کتاب یا سنت یا اجماع امت سے کفر ثابت ہے اس پر دلیلِ شرعی کی وجہ سے کفر کا حکم لگایاجائے گا اور یہ اس لیے کہ ایمان صرف ان احکام سے ماخوذ ہے جو اللہ اور اس کے رسول سے ہم کو پہنچے ہیں ۔ اور جن میں لوگوں کے لیے اپنے ظنون و اوہام کی بنا پر خیا ل آرائیاں جائز نہیں ہیں مگر ساتھ ہی یاد رکھنا چاہیے کہ کفریہ قول کے قائل پر کافر ہو نے کا حکم نہ لگایا جائے گا یہاں تک کہ اس کے حق میں کفر کی شرطیں ثابت اور موانع دور ہو جائیں مثلاً اگر کوئی تازہ نو مسلم صحرا کا رہنے والا بدو کہہ دے کہ شراب یا سود حلال ہے یا اللہ اور رسول کا کلام سن کر انکا ر کر بیٹھے کہ یہ قرآن یا حدیث نہیں ہے جیسا کہ سلف میں بعض لوگ کسی کسی بات کا انکار کر دیا کرتے تھے، یہاں تک کہ اس کی صحت معلوم ہو جائے اور جیسا کہ بعض صحابہ کبھی کسی مسئلہ میں شک کرنے لگتے تھے، یہاں تک کہ اس کی صحت معلوم ہو جائے (مثلاً رؤیت الٰہی وغیرہ مسائل) یہاں تک کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کرتے۔ یا جیسا کہ ایک شخص کی حکایت مروی ہے کہ اس نے کہا کہ جب میں مروں تو مجھے پیسنا اور میری خاک سمندر میں چھڑک کر بہا دینا تاکہ میں اللہ کی نظر سے گم ہو جاؤں وغیرہ اقوال تو گو وہ کفر ہیں مگر ان کا قائل کافر نہیں یہاں تک کہ حجتِ رسالت قائم ہو جائے جیسا کہ اللہ نے فرمایا:
﴿لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَی اللّٰہِ حُجَّۃٌ بَعْدَ الرُّسُلِ ﴾ (النساء:۱۶۵)
|