علماء موجودہیں جن کی تفصیل کا یہ فتویٰ متحمل نہیں مثلاً آپ نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:
(( مَا اَتَاکَ مِنْ ھٰذَا الْمَالِ وَاَنْتَ غَیْرُ سَائِلٍ لَہٗ وَلَا مُشْرِفٌ فَخُذْ وَاِلَّا فَلَا تُتْبِعْہُ نَفْسَکَ)) (صحیحین وغیرہ)
’’ جو مال تمہارے پاس اس طرح آئے کہ نہ تم نے اسے مانگانہ اس کے لیے للچائے تولے لو اور جو اس طرح نہ ہو اس کا خیال نہ کرو۔‘‘
اور فرمایا:
((مَنْ یَّسْتَغْنِ یُغْنِیْہِ اللّٰہُ وَ مَنْ یَّسْتَعْفِفْ یُعِفُّہُ اللّٰہُ وَمَنْ یَّتَصَبَّرْ یُصَبِّرُہُ اللّٰہُ وَمَا اُعْطِیَ اَحَدٌ عَطَائً خَیْرًا اَوْسَعَ مِنَ الصَّبْرِ۔)) (صحیحین)
’’جو استغناچاہتا ہے اللہ اسے مستغنی کرے گا، جو سوال سے بچنا چاہتا ہے اللہ اسے بچائے گا، جو صبرکرنا چاہتا ہے اللہ اسے صبر دے گا۔ صبر سے بڑا عطیہ کسی کو نہیں ملا۔‘‘
اور فرمایا:
((وَمَنْ سَئَالَ النَّاسَ وَلَہٗ مَا یُغْنِیْہِ جَآئَ تْ مَسْئَلَتُہٗ خُلُوْشًا (اَوْ خُمُوْشًا اَوْ کُلُوْشًا) فِیْ وَجْھِہٖ۔))[1]
’’جس نے لوگوں سے اس حال میں سوال کیا کہ اس کے پاس ضرورت بھر کا ہے تو اس کا یہ سوال ( قیامت کے دن) اس کے چہرے پر خراش بن کر ظاہر ہو گا۔‘‘
اور فرمایا:
((لَاَنْ یَّاْخُذَ اَحَدُکُمْ حَبَلَہٗ فَیَذْھَبَ فَیَحْتَطِبْ خَیْرٌ لَّہٗ مِنْ اَنْ یَّسْئَلَ النَّاسَ اَعْطُوْہُ اَمْ مَنَعُوْہٗ۔))
|