جبل حرا جس میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم عبادت کرتے تھے اور اس میں آنجناب پر وحی نازل ہوئی تھی، یا وہ غار(غار ثور) جوقرآن میں مذکور ہے، یا علاوہ ازیں دیگر ان قبروں ‘ مقامات اور خانقاہوں کے لیے جو( کسی نہ کسی طرح) بعض انبیاء علیہم السلام و مشائخ کی جانب منسوب ہیں ، یا بعض غاروں یا پہاڑوں کے لیے سفر کی منت کا ایفا باتفاقِ ائمہ اربعہ واجب نہیں کیونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نہی ’’تین مسجدوں کے علاوہ (کسی مقام کے لیے باعتقادِ ثواب) سفر نہ کیا جائے‘‘ کے باعث ان تمام مواضع کا سفر کرنا منع ہے۔ تو جب ( ہر سہ مساجد مذکورہ کے علاوہ دیگر تمام) مساجد جو خانہ خدا ہیں ، جن میں پانچوں وقت نماز پڑھنے کا حکم ہے، کی جانب سفر کرنے سے منع فرما دیا، حتیٰ کہ مسجد قبا کے لیے بھی سفر کرنا منع فرمایا جس میں اہل مدینہ کو جانا مستحب ہے، کیونکہ صحیحین میں بروایت ابن عمر رضی اللہ عنہما آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا ہر ہفتہ کے دن مسجدقبا میں سوار و پیادہ پا چل کر جانا ثابت ہے اورترمذی وغیرہ کی روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا’’ جو شخص اپنے گھر میں اچھی طرح وضو کر کے مسجد قبا میں محض ادائے نماز کے لیے جائے اسے عمرہ کا ثواب ہو گا۔‘‘ ترمذی نے اس حدیث کو حسن صحیح کہا ہے۔ جب ایسے (مقامات) کے سفر سے منع فرما دیا گیا ہے تو کو ہ طور کی طرف سفر کرنا بدرجہ اولیٰ ممنو ع ہے۔
آثارِ انبیاء کو سجدہ کرنا باعث لعنت ہے:
ایسے ہی امام مالک رحمہ اللہ کے ذکر کردہ وہ مقامات جو صلوات خمسہ کے لیے تعمیر نہیں ہوئے، بلکہ انہیں مسجد( سجدہ گاہ) بنانا بھی منع ہے ( اور باعث لعنت ہے ) کیونکہ صحیحین میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ آپ نے مرض الموت میں وفات سے پانچ روزپہلے فرمایا تھا:
((لَعَنَ اللّٰہُ الْیَھُوْدَ النَّصَاریٰ اِتَّخِذُوْا اٰثَارَ اَنْبِیَائِھِمْ مَّسَاجِدَ۔))
’’یہود و نصاریٰ پر اللہ کی لعنت ہو جنہوں نے آثارِ انبیاء کو مساجد (سجدہ گاہ) بنا لیا۔‘‘
|