قبول ہوتی ہے، ایک ایسا قول یا اعتقاد ہے جس کی اصل کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں موجود نہیں ۔ کوئی صحابی، تابعی یا مشہور امام اس کا قائل نہیں ، مثلاً امام مالک، سفیان ثوری، اوزاعی،لیث بن سعد، امام ابو حنیفہ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل، اسحاق بن راہویہ اور ابو عبیدہ رحمہم اللہ سب اس قول کے خلاف ہیں ۔
انبیاء و صلحاء کی قبریں :
مشائخ میں سے بھی قابل اقتداء مشائخ طریقت،مثلاً فضیل بن عیاض، ابراہیم بن ادھم اور ابو سلیمان دارانی وغیرہ سے بھی یہ منقول نہیں ۔ صحابہ و تابعین ،ائمہ عظام اور مشائخ متقدمین میں سے کسی نے یہ نہیں کہا کہ انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی قبروں کے پاس بالعموم یا ان میں سے کسی خاص قبر کے پاس دعا قبول ہوتی ہے۔
وہ تو یہ بھی نہیں کہتے کہ انبیاء علیہم السلام اور صالحین کی قبروں کے پاس دعا کرنا دوسری جگہ دعا کرنے سے افضل ہے، یا وہاں نماز پڑھنے میں کسی دوسری جگہ پر نماز پڑھنے سے زیادہ ثواب ہے۔ ان بزرگانِ دین میں سے کوئی بھی اس قسم کی قبروں کے پاس دعا کرنے یا نماز پڑھنے کے لیے قصداً نہیں جاتا تھا۔
|