Maktaba Wahhabi

144 - 485
رہا ہے۔ جس طرح تاتار اور ہند اور سوڈان وغیرہ اصناف میں مشرکین میں شیاطین کا اغوا اور بات چیت کرنا وغیرہ پھندے جاری ہیں ۔ پس بہت سے مشائخ پرستوں کے لیے بھی اس قسم کی باتیں واقع ہو جاتی ہیں خصوصاً مجالس سماع میں جب سیٹیاں مارتے اور تالیاں بجاتے اور حالت رقص میں مصروف ہوتے ہیں کیونکہ ایسی حالت میں شیطان ان پر نازل ہوتے ہیں اور بعض کی اس وقت ایسی حالت ہو جاتی ہے جیسے (مصر وع) مرگی والے کی مثلاً اونٹ کی طرح بڑ بڑانا اور منہ سے جھاگ نکالنا اور عجیب بے طرح آواز نکالنا اور اس وقت شیطان ایسے الفاظ میں ان سے کلام کرتا ہے جن کو نہ تو وہ خود سمجھتے ہیں اور نہ حاضرین کی سمجھ میں آتے ہیں اور اسی طرح کی اور باتیں جن کا ایسے لوگوں میں واقع ہونا ممکنات میں سے ہے۔ تیسری صورت یہ ہے کہ کوئی یوں کہے اے اللہ! بحرمت فلاں یا بہ برکت فلاں یا بجاہ فلاں میری آرزو بر لا۔ پس یہ عمل ایسا ہے کہ اکثر لوگ اس کو کرتے ہیں لیکن صحابہ، تابعین اور ائمہ سے اس امر کا کوئی ثبوت نہیں ملتا کہ وہ دعا میں یوں کہتے تھے۔ اور علماء میں سے بھی اس کی نفی یا اثبات میں کوئی قول مجھے نہیں پہنچا جس کو میں نقل کروں ۔ البتہ فقیہ ابی محمد بن عبدالسلام کے فتاویٰ میں میں نے دیکھا ہے کہ انہوں نے فتویٰ دیا کہ سوائے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے کسی اور کے حق میں ایسا کرنا جائز نہیں ۔ اور آپ کے طفیل سے دعا کرنے کے بارے میں جو حدیث نقل کرتے ہیں اگر وہ صحیح ہو تو خاص آ پ کے توسل سے دعا کرلینا جائز ہے۔ اور جس استفتاء کے جواب میں فقیہ موصوف نے یہ فتویٰ دیا ہے اس کا مضمون یہ ہے: نسائی اور ترمذی وغیرہ نے روایت کیا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض صحابہ کو یہ دعا سکھائی: ((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اَسْئَالُکَ وَاَتَوَسَّلُ اِلَیْکَ بِنِبِیِّکَ نَبِیِّ الرَّحْمَۃِ یَا مُحَمَّدُ یَا رَسُوْلَ اللّٰہِ اِنِّیْ اَتَوَسَّلُ بِکَ اِلیٰ رَبِّیْ فِیْ حَاجَِتِیْ لِیَقْضِیَھَا لِیْ اَللّٰہُمَّ فَشَفِّعْہُ فِیَّ۔))
Flag Counter