مقدمہ
اصحابِ صُفّہ کا شمار ملت اسلامیہ کے ان محسنوں اور فدائیوں میں ہو تا ہے، جنہوں نے زندگی کی تمام نعمتیں وطن، اہل وعیال، مال و دولت اور عیش و عشرت کو تعلیمِ دین اور اشاعتِ اسلام کے لیے وقف، اللہ کے لیے نذر، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قدموں پر نثار کر دیا تھا۔ ان کا وطن اسلام تھا، حسب و نسب اسلام تھا،زندگی اسلام کے لیے تھی اور خاتمہ بالخیر اسلام اور رضائے الٰہی پر ہوا ۔
مسجدِنبوی میں ان کا مسکن صُفّہ اب بھی موجود ہے جو اسلامی دنیا کی پہلی دینی وعلمی درسگاہ تھی، لوگ اسے عقیدت کی نگاہ سے دیکھتے اور ملت کے ان محسنوں کے حق میں دعائے خیر کرتے ہیں ۔
لیکن افسوس! یہ کتنا بڑا سانحہ ہے کہ ان عالی مرتبت اصحابِ کرام رضی اللہ عنہم کے حقیقی حالات پر پردہ ڈالا گیا اور ا ن کے ساتھ مختلف قسم کے اوہام و خرافات کو منسوب کر کے ان اولوالعزم مجاہدوں اور قناعت پسند غیور و درد مند محسنوں کو محض تارک الدنیا فقیر اور حال و قال میں مست چِلّہ کش صوفی کی شکل میں پیش کیا جاتا ہے اور انہیں آج کل کے خانقاہی پیشہ ور صوفیوں کی طرح قیاس کیا جاتا ہے، اور موجودہ قبوری تصوف کو ان کا علمبردار بتایا جاتا ہے، اور ان مؤحد نفوس قدسیہ کو قطب، ابدال، غوث، قلندر، خاتم الاولیاء وغیرہ جیسے جھوٹے القاب عطا کیے جاتے ہیں ۔
انہی جھوٹی روایات اور من گھڑت حکایات کی وجہ سے مسلمانوں میں اہلِ کتاب کی رہبانیت، بت پرستوں کا سنیاس اور مجوسیوں کی درو یشیت اور باطنیوں کے بے بنیاد اوہام و
|