قبل بیان کرچکا ہے۔
2۔ نیز آپ لکھتے ہیں:”اگر صحیح حدیث مل جائے تو ہم امام صاحب رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال چھوڑ دیتے ہیں۔ “یہ بندہ آپ کو آپ کی اس بات پر دو طرح سے غور و فکرکرنے کی دعوت دیتا ہے اُمید کی جاتی ہےکہ آپ ان دو طرح سے ضروربالضرور غور فرمائیں گے ان شاء اللہ تعالیٰ آخر آپ ماشاء اللہ منصف مزاج ہیں اولاً تو اس طرح کہ آپ کی اس مندرجہ بالابات میں صرف حضرت الامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ ہی شامل نہیں بلکہ دنیا بھر کے تمام آئمہ رحمۃ اللہ علیہ شامل ہیں دیکھئے اگر آپ کو صحیح حدیث مل جائے تو کیا آپ حضرت الامام مالک رحمۃ اللہ علیہ، حضرت الامام شافعی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت الامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال نہیں چھوڑیں گے؟چھوڑیں گے یقیناً چھوڑیں گے تو اس طرح آپ یہی کیوں نہیں کہہ دیتے کہ ”فروعی مسائل میں ہم امام احمد بن حنبل الامام رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہیں۔ “یا”فروعی مسائل میں ہم امام مالک رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہیں“یا فروعی مسائل میں ہم امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید کرتے ہیں۔ “اگر آپ کو صحیح احادیث مل جائے تو ان آئمہ کے اقوال کو بھی تو آپ لوگوں نے چھوڑہی دینا ہے نا تو پھر”فروعی مسائل میں امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی تقلید“کا دعویٰ کرنے سے دیگر مقلدین کی نگاہوں میں گرنے سے آخر آپ کو کوئی فائدہ؟
اورثانیاً اس طرح کہ آپ حضرت الامام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے کل اقوال سے صرف تین اقوال بطور مثال درج فرمائیں جن جن کو آپ نے محض صحیح حدیث مل جانے کی بنا پر فی الواقع چھوڑ دیا ہو کیونکہ انصاف واخلاص کا تقاضا یہی ہے۔
3۔ آپ کے دعویٰ ”فروعی مسائل“الخ میں فروعی کی قید سے اشارہ ہوتا ہے کہ آپ لوگ اصولی مسائل میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کی تقلید نہیں کرتے تو کیا حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ آپ کے ہاں اصولی مسائل میں اعلم (زیادہ جاننے والے) نہیں؟یااصولی مسائل میں حضرت امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال آپ کے نزدیک کتاب وسنت
|