علي هذا عند اهل العلم ان لا الخ) تو اس عبارت میں بلکہ پورے باب میں امام صاحب نے نہ تو کسی عمل کو متواتر کہا، نہ ہی کسی عملی تواتر کو کسی چیز کی بنیاد بنایا اور نہ ہی کسی ضعیف روایت کو کسی صحیح روایت سے مقدم سمجھا نہ مطلقا اور نہ کسی عملی تواتر کی بنیاد پر ہاں ان کی اس عبارت سے یہ ضرور پتہ چلتا ہے کہ امام ترمذی کے نزدیک اہل علم کے عمل کے کسی حدیث کے موافق ہونے سے اس حدیث کا صحیح یاحسن ہونا ثابت نہیں ہوتا کیونکہ وہ حدیث کے راوی حنش بن قیس کو ضعیف بھی بتارہے ہیں اور اس کی روایت کے موافق اہل علم کا عمل بھی بیان فرمارہے ہیں تو اب سوچنے کی بات یہ ہے کہ روایات کے صحیح وسقیم ہونے کا علم یا نقد روایات کا سلیقہ فن حدیث کے مسلم الثبوت جلیل القدر اور وسیع العلم امام ابوعیسیٰ ترمذی کو زیادہ اور خوب حاصل ہے یا عصر حاضر کے ان حضرات کو جوان کی نسبت طفل مکتب ہیں (سَتُبْدِي لَكَ الأيَّامُ...الخ)۔
1۔ گیارہ رکعات والی روایت پر کلام کی تحقیق:
حضرت المؤلف فرماتے ہیں:
”اب رہی وہ روایت جو حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے منقول ہے کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعت پڑھائیں(موطا امام مالک باب قیام رمضان) سویاد رہےکہ اس اثر کے ناقل صرف اور صرف محمد بن یوسف ہیں اور محمد بن یوسف کے پانچ شاگرد ہیں اور ان پانچوں کے بیان باہم مختلف ہیں جیسا درج ذیل نقشہ سے صاف ظاہر ہے۔
سائب بن یزید صحابی رضی اللہ عنہ
محمد بن یوسف
1۔ (امام مالک):حضرت عمر نے ابی بن کعب اور تمیم داری کو حکم دیا کہ وہ لوگوں کو گیارہ رکعات پڑھائیں۔ بحوالہ مؤطا امام مالک رحمۃ اللہ علیہ۔
|