کی ترک رفع الیدین والی روایت میں حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان نہیں کیا کہ رفع الیدین منسوخ ہے تو جو قاری صاحب کا مدعا ہے وہ تو حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان نہیں کیا اور جو کچھ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا وہ قاری صاحب کا مدعا نہیں لہٰذا قاری صاحب کا (فصَدِّقوه) کو اس مقام پر چسپاں کرنا بے محل ہے۔
4۔ رابعاً: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی ترک رفع الیدین والی روایت کو قابل احتجاج سمجھ کر چند منٹ کے لیے ہم اس کی تصدیق کردیتے ہیں۔ مگر اس سے بھی قاری صاحب کا مدعا”ترک رفع الیدین کا رفع الیدین سے متاخر اور اس کا ناسخ ہونا“تو ہر گز ثابت نہ ہو گا تو پھر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی یہ منقبت اس مقام پر بیان کرنے سے انہیں فائدہ؟
5۔ خامساً: اگر قاری صاحب اس (فصَدِّقوه) کے پیش نظر حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی تر رفع الیدین والی روایت کو متاخر اور ناسخ مانتے ہیں تو پھر ان کو لازم ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی کی صحیح مسلم میں موجود تطبیق فی الرکوع اور تین نمازیوں کی جماعت کی کیفیت والی حدیث کو بھی متاخر اور ناسخ مانیں کیونکہ (فصَدِّقوه) تو دونوں مقام پر چسپاں ہو رہا ہے دیکھئے قاری صاحب کوئی انصاف لگتی کہتے ہیں یا نہیں؟
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے نسخ پر استدلال کا تیسرا جواب:
بندہ نے اپنے پہلے رقعہ میں لکھا تھا”(3) ثالثاً چند منٹ کے لیے اگر تسلیم کر لیا جائے کہ حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت احادیث رفع الیدین سے متاخر ہے تو بھی اس کو ناسخ رفع الیدین قراردینا درست نہیں کیونکہ اُصول کا قاعدہ ہے کہ فعل ناسخ نہیں ہوا کرتا۔ “(میرا رقعہ نمبر1ص8)اس کو پڑھ کر قاری صاحب لکھتے ہیں۔
آپ ماشاء اللہ عالم دین ہیں لیکن مجھے آپ پر افسوس بہت آتا ہے کہ آپ فرما رہے
|