ہاں اگر قاری صاحب کا نظریہ ہوکہ رکوع جاتے اور اس سے سراٹھاتے وقت رفع الیدین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سرے سے ثابت ہی نہیں تو ان کا فرض ہے کہ وہ اپنا یہ نظریہ صاف اور واضح لفظوں میں لکھیں اور یہ بات یادرکھیں اس نظریہ سے ان کا ”منسوخیت رفع الیدین“ والا دعویٰ لامحالہ غلط ٹھہرے گا تو اس صورت میں انہیں منسوخیت والا دعویٰ واپس لینا ہوگا۔ اگرقاری صاحب نے اپنا دعویٰ ”منسوخیت رفع الیدین“ واپس لے لیا اوردوسرا موقف ونظریہ، رکوع جاتے وقت اور اس سے سر اُٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اصلاً ثابت ہی نہیں“لکھ دیا تو ان شاء اللہ العزیز بتایا جائے گا کہ ان کا یہ دوسرا نظریہ دعوائے نسخ کی طرح ان کی پیش کردہ پانچ اور غیر پیش کردہ روایات میں سے کسی ایک روایت سے بھی ثابت نہیں ہوتا۔
حضرت جابر بن سمرۃ ر ضی اللہ عنہ والی روایت سےنسخ رفع الیدین پر استدلال کی روایت:
رہاحضرت قاری صاحب کا حضرت جابر بن سمرۃ رضی اللہ عنہ کی روایت سے نسخ رفع الیدین پراستدلال تو وہ بھی نادرست ہے۔
1۔ اولاً تو اس لیے کہ اس روایت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ(مَالِي أَرَاكُمْ رَافِعِي أَيْدِيكُمْ) بھی موجود ہیں جن کا معنی ہے”کیا ہے مجھے یا میرے لیے دیکھتا ہوں میں تمھیں اپنے ہاتھ اُٹھانے والے“اور واضح ہے کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم جو رفع الیدین خود کیا کرتے تھے اور جو رفع الیدین صحابہ کرام رضی اللہ عنھم آپ کے اتباع میں کیاکرتے تھے وہ رفع الیدین تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو معلوم ہی تھا پھر اس رفع الیدین سے متعلق آپ مَالِي أَرَاكُمْ الخ کیونکر فرماسکتے ہیں لہٰذا اس روایت سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رکوع جاتے اور اس سےسراٹھاتے وقت رفع الیدین کے نسخ پر استدلال غلط ہے۔
2۔ ثانیاً اس لیے کہ اس روایت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے لفظ (كأنَّها أذنابُ الخيلِ الشُّمْسِ) بھی مذکور ہیں جن کا ترجمہ ہے”گویا وہ ہاتھ سرکش گھوڑوں کی دُمیں
|