تو اس جواب کا حاصل مطلب یہ ہے کہ رفع الیدین کی منسوخیت کا قائل اور مدعی ہوکر رفع الیدین کرنے کے دلائل طلب کرنا غیر معقول بات ہے کیونکہ منسوخیت رفع الیدین کا قائل اورمدعی ہونااس بات کا بین ثبوت ہے کہ منسوخیت رفع الیدین کا قائل اور مدعی رفع الیدین کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہونے کو تو تسلیم کرتا ہے اور اس کے دلائل بھی اس کی نظر میں ہیں۔ ہاں اتنی بات ہے کہ وہ اس کے نسخ کا قائل اور مدعی ہے چنانچہ قاری صاحب بذات خود اپنے اس پانچویں رُقعہ میں لکھتے ہیں” آپ منسوخیت رفع الیدین کے مدعی ہو لہٰذا آپ کے ان تین سوالوں کا کوئی جواز نہیں الخ یہ تو مولانا صاحب اس وقت فرماتے کہ جب میں منسوخ کا قائل ہوتا“ (ص 1) تو گزارش ہے کہ اس بندہ نے یہ بات اسی لیے اور اسی وقت کہی جبکہ آپ رفع الیدین کی منسوخیت کے قائل اور مدعی ہیں چنانچہ آپ اپنے پہلے رُقعہ ص1پر لکھتے ہیں” اور دلیل منسوخیت پر بھی“ اور پھر آپ ہی اپنے پانچویں رقعہ کے ص 3 پرتحریر فرماتے ہیں” تو خیر میرا دعویٰ ہے منسوخیت رفع الیدین کا“ تو قاری صاحب للہ کچھ تو فہم وبصیرت سے کام لیں آیا آپ کے اپنے ہی ان بیانوں کی روشنی میں آپ کے ان تین سوالات کا کوئی جواز باقی رہا؟نہیں ہرگز نہیں۔
قاری صاحب کو ان کے تین سوالوں کے عدم جواز پر دلائل کااعتراف:
اس عنوان کے تحت بندہ نے اپنے رقعہ نمبر 4 میں لکھا ہے”اپنے ان تین سوالات کے مذکورہ بالا جوابات پڑھ کر قاری صاحب اپنے تیسرے رقعہ میں لکھتے ہیں” اس کے بعد آپ نے عدم جواز کی دلیلیں بیان فرمائی تھیں“ تو جب آپ نے خود اعتراف واقرار فرمالیا کہ بندہ نے آپ کے تین سوالوں کی کوئی وجہ جواز نہ ہونے کے دلائل بیان کردئیے ہیں اورآپ کے رقعے شاہد ہیں کہ آج تک آپ نے ان تین سوالوں کی کوئی وجہ جواز نہ ہونے کے دلائل کا کوئی توڑ پیش نہیں فرمایا تو ان حالات میں خود سوچئے اور کسی دوسرے سے پوچھئے کہ اپنے ان تین سوالوں کی کوئی وجہ جواز نہ
|