تاکہ یہ بندہ بھی انہیں ملاحظہ کر سکے۔
تیسرا امر
جو لفظ مجھے طحاوی میں ملے وہ مندرجہ ذیل ہیں امام طحاوی رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:
(ابن أبي داود قال ثنا نعيم بن حماد قال ثنا وكيع عن سفيان عن عاصم بن كليب عن عبد الرحمن بن الأسود عن علقمة عن عبد اللّٰه عَنِ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ اَنَّهُ كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ في أوَّلِ تَكبيرَةٍ ثُمَّ لَا يَعُودُ) (شرح معانی لآثار للطحاوی جلد اول ص154)
چوتھا امر
طحاوی کے حاشیہ میں مولوی وصی احمدصاحب حنفی لکھتے ہیں:
(كَانَ يَرْفَعُ يَدَيْهِ اَخْرَجَهُ التِّرْمَذِيُّ وَقَالَ :حَدِيْثٌ حَسَنٌ)
تو اس سے معلوم ہوا کہ دیگر حنفی حضرات بھی قاری صاحب کی طرح امام ترمذی کے فیصلے ”حدیث حسن“کو طحاوی اور ترمذی دونوں میں موجود الفاظ سے متعلق سمجھتے ہیں نیز وہ طحاوی والی روایت اور ترمذی والی روایت کو الفاظ کے جدا جدا ہونے کے باوصف ایک ہی سمجھتے ہیں اس لیے تو فرماتے ہیں۔ ( اَخْرَجَهُ التِّرْمَذِيُّ)اور اسی لیے قاری صاحب نے بھی ترمذی والی روایت کے لفظ نقل فرما کر طحاوی کا بھی حوالہ دیا ہوا ہے دیکھئے ان کا پہلا رقعہ لہٰذا حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ ( وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الخ )کو صرف طحاوی والی روایت سے متعلق قراردینا ان کے ہاں بھی درست نہ رہا نہ لازم آئے گا کہ جس روایت کو قاری صاحب پہلے حسن کہہ چکے ہیں اب وہ خود ہی اسے غیر ثابت لکھ رہے ہیں۔
پانچواں امر
قاری صاحب نے حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ کے فیصلہ (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الخ) کے ترمذی، نسائی، دارقطنی، بیہقی اور مسند اعظم کی روایتوں سے متعلق نہ ہونے کی وجہ یہی بیان کی ہے کہ حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ کے فیصلہ کے الفاظ ان روایتوں سے نہیں ملتےتو اس سلسلہ میں انہیں یاد ہونا چاہیے کہ طحاوی کے لفظ بھی
|