ان بزرگوں کو بھی تو معلوم ہی تھی ناآخر طحاوی، بیہقی، دارقطنی، مسند الامام ابی حنیفہ، ترمذی، نسائی، ابوداؤد اوردیگر کتب حدیث ان بزرگوں کے مطالعہ میں بھی تورہا کرتی تھیں۔
ساتویں شہادت:
حافظ منذری بھی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ کو ترمذی اور دیگر کتب والی روایت سے بھی متعلق سمجھتے ہیں جیسا کہ علامہ ماردینی حنفی کےمنقول بالاکلام سے واضح ہے اس سلسلہ میں اور بھی بہت سے محدثین اور اہل علم کے نام گنوائے جاسکتے ہیں مگر سردست ان سات بزرگوں کے اسماء گرامی پر ہی اکتفا کرتا ہوں تو سات شہادتوں والے جواب سمیت یہ کل دس جوابات ہیں جن سے قاری صاحب اور ان کے ہمنوا حضرات کے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ کو ترمذی، ابوداوداور نسائی میں مذکور حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت سے ٹالنے والی سعی وکوشش کا خوب خوب رد ہوگیا۔
اس سلسلہ میں قاری صاحب کی ایک اور بات کا رد:
قاری صاحب لکھتے ہیں”اور دوسری بات یہ کہ ہے بھی غیر مفسر[1]الخ“ (قاری صاحب کا رقعہ نمبر 5ص 7) تو ان کی یہ بات بھی کئی وجوہ سے نادرست ہے۔
1۔ حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے اپنے اس فیصلہ میں کسی راوی پر جرح نہیں کی صرف حدیث کے متعلق اپنا حکم اور فیصلہ سنایا ہے کہ وہ ثابت نہیں زیادہ سے زیادہ آپ یہ کہہ سکتے ہیں کہ انہوں نےثابت نہ ہونے کی کوئی دلیل ذکر نہیں کی مگر یہ کوئی اعتراض نہیں اور نہ ہی حضرت عبداللہ بن مبارک کےفیصلہ کے ان
|