خلاف واقعہ دعوے
کسی کے خلاف کچھ نہ لکھنے اور کہنے کا دعویٰ
قاضی صاحب نےاپنی معصومیت کے اظہار کے لیے اپنی تحریر کی ابتداء ہی ایک خلاف واقع بلکہ ناممکن الوقوع دعویٰ سے کی ہے۔ فرماتے ہیں:
”بندہ پندرہ بیس سال سے اس شہر گوجرانوالہ میں اکابرین دیوبند کے نقش قدم پر چل کر مثبت انداز میں حسب طاقت دین کی خدمت کر رہا ہے آج تک نہ تو میں نے کسی کے خلاف قلم اٹھایا اور نہ ہی زبان ہلائی ہے۔ “(اظہار المرام ص3)
قاضی صاحب کا آج تک کسی کے خلاف نہ قلم اٹھانا اور نہ زبان ہلانا اور اس کا م کواکابرین دیوبند کے نقش قدم پر چلنا قراردینا ان کے وہ متوسلین تو شاید درست تسلیم کر لیں جوقاضی صاحب کے دن کو رات کہنے پر بھی سبحان اللہ کہنے کے عادی ہوں وہ شخص جسے اللہ نے تھوڑی سی بصیرت بھی دی ہے ہر گز نہیں مان سکتا کہ کوئی مبلغ (خواہ کسی مکتب فکر سے تعلق رکھتا ہو)ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ کسی کے خلاف زبان نہ ہلائے۔ دنیا میں سب سے بڑے مبلغ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات بھی مشرکین، یہود و نصاریٰ، منافقین اور دوسرے گمراہ لوگوں کے خلاف ہوتی تھی اللہ تعالیٰ نے صاف فرمایا: قُلْ يَا أَيُّهَا الْكَافِرُونَ لَا أَعْبُدُ مَا تَعْبُدُونَاب بھی کوئی شخص اگر غیر اللہ سے مدد مانگنا جائز قراردے گا تو اس کی بات ایک اللہ سے مدد مانگنے والوں کے خلاف ہوگی اگر وہ صرف اللہ سے مدد مانگنے کی بات کرے گا تو وہ غیر اللہ سے استغاثہ کرنے والوں اور قبروں پر جا کر اہل قبور سے روٹیاں اور اشرفیاں مانگنے والوں کے خلاف ہوگی۔ مدح صحابہ کرے گا تو شیعوں کے خلاف ہوگی۔ حدیث نہ ماننے والوں کو گمراہ قراردے گا تو منکرین حدیث کے خلاف ہوگی۔ صرف کتاب و سنت پر جمع ہونے کی دعوت
|