جواب از مفتی عبدالشکور صاحب نصرۃ العلوم گوجرانوالہ
الجواب ومنه الصدق والصواب
مذکورہ بالا روایت سے مطلقاً فاتحہ خلف الامام پر استدلال کرنا درست نہیں کیونکہ دعویٰ خاص اور دلیل عام ہے نہ اس میں مقتدی کی قید موجود ہے اور نہ خلف الامام کی اور جب تک دعویٰ اور دلیل میں مطابقت نہ ہو تو دعویٰ قابل [1]مسموع نہیں ہو سکتا ائمہ حدیث میں حضرت امام احمد رحمۃ اللہ علیہ حضرت سفیان ثوری حضرت ابن عیینہ رحمۃ اللہ علیہ، حضرت امام زہری رحمۃ اللہ علیہ جیسے ائمہ راویان حدیث نے امام اور منفرد کے حق میں قراردیا ہے مقتدی کو اس میں شامل نہیں کیا کیونکہ حضرت جابر ابن عبد اللہ صحابی رضی اللہ عنہ سے مرفوعاً اور موقوفاً ثابت ہے:
(من صلى ركعة لم يقرأ فيها بأم القرآن فلم يصل إلا وراء الإمام)
مؤطا امام مالک، طحاوی، ترمذی میں موجود ہے جس نے کوئی رکعت پڑھی جس میں سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی اس نے نماز نہیں پڑھی مگر امام کے پیچھے (ہوتو نماز ہوجائے گی) امام ترمذی کہتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ ارشاد:
(لا صَلاة لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)
کا مطلب یہ ہے کہ جب تنہا نماز پڑے تو سورۃ فاتحہ کے بغیر نماز نہ ہو گی۔ دیکھئے جابر بن عبد اللہ صحابی رضی اللہ عنہ اس حدیث کا یہی مطلب بیان فرماتے ہیں دوسرا صحیح حدیث سے ثابت ہے:
(من كان له إمام فان قراءتہ له قراءة)
جو کسی امام کے پیچھے نماز پڑھے اس کی قراءت اس کے لیے بھی قراءت ہے تو اب یہ کہنا صحیح نہیں کہ مقتدی نے سورۃ فاتحہ نہیں پڑھی جب امام نے پڑھ لی ہے تو اس نے بھی حکماً پڑھ لی ہے گوزبان سے نہیں پڑھی کیونکہ مقتدی کو حدیث صحیح میں قراءۃ
|