سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں ہوئی اور حضرت الامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا ارشاد ہے:کہ نماز میں ایک آیت پڑھ لی جائے تو نماز ہو جاتی ہے“فرمائیے سائل کے سوال میں کہیں عینک لگا کر دیکھنے سے بھی مقتدی یا خلف الامام نظر آتا ہے؟چونکہ جواب کا یہ حصہ سوال سے غیر متعلق ہے اس لیے نہایت کمزور باتوں پر مشتمل ہونے کے باوجود میں اس سے صرف نظر کرتا ہوں صرف ایک بات واضح کرنا ضروری سمجھتا ہوں کہ جب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے عام طور پر سورۃ فاتحہ نہ پڑھنے والے ہر شخص کی نماز کی نفی فرما دی تو اس سےسورۃ فاتحہ نہ پڑھنے والے امام کی نماز کی بھی نفی ہوگئی، مقتدی کی بھی اور منفرد کی بھی۔ کیونکہ یہ مسلمہ قاعدہ ہے کہ عام کی نفی ہو جائے تو اس کے نیچے جتنے بھی خاص ہوں سب کی نفی ہو جاتی ہے۔ چنانچہ مولانا سرفراز خاں صاحب صفدر فرماتے ہیں: عام کی نفی سے خاص کی نفی عین عقلی اور منطقی قاعدہ ہے احسن الکلام ص152۔ 153، طبع دوم۔
معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد:”جس شخص نے سورۃ فاتحہ نہ پڑھی اس کی نماز نہیں “میں عام کی نفی کی وجہ سے امام، منفرد اور مقتدی سب کی نماز کی سورۃ فاتحہ کے بغیر نفی ہوگئی۔
اس کے باوجود سمجھنے کی خاطر ایک منٹ کے لیے مفتی صاحب مقتدی کو نکال دیں صرف امام اور منفرد کو لے لیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان کے مطابق سورۃ فاتحہ پڑھنے کے بغیر ان کی نماز نہیں ہوگی جب کہ امام ابو حنیفہ کے ارشاد کے مطابق ایک آیت سے ہو جائے گی۔ سائل کا سوال یہ ہے کہ یہ تضاد دور فرمائیں۔
تضاد دور کرنے کی کوشش:
جواب کے آخری حصہ میں مفتی صاحب نے اس تضاد کو دور کرنے کی کوشش فرمائی ہے مفتی عیسیٰ صاحب کی طرح مغالطہ نہیں دیا بلکہ مفتی محمد عیسیٰ صاحب کی یکجا کردہ دونوں عبارتوں کو اپنی اپنی جگہ پر رکھا ہے۔ چنانچہ انھوں نے قراءت کے ضرور ی ہونےکی تین قسمیں بنائی ہیں۔ فرماتے ہیں:
”ایک ہے قراءت کی فرض مقدار جو ایک بڑی آیت یا چھوٹی تین آیات ہے اگر کسی نے نماز میں قرآن پاک سے بڑی ایک آیت یا چھوٹی تین
|