پڑھا)کو حافظ ابن حبان اور حافظ ابن خزیمہ نے اپنی اپنی صحیح میں بیان کیا ہے جو اس بات کی بین دلیل ہے کہ یہ حدیث اب دونوں جلیل القدر وسیع العلم حضرات کے نزدیک صحیح ہے مگر تصحیح میں ان کا تساہل مشہور ہے اور اس کی سند میں عیسیٰ بن جاریہ ہے جس پر کلام کتب رجال میں مذکورہے چنانچہ حافظ ذہبی میزان میں معدلین و جارحین کے اقوال نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں اس حدیث کی سند وسط ہے نیموی صاحب نے فرمایا: (اسناده دون وسط)(اس کی اسناد (درمیانی)سے کم ہے) جس پر صاحب تحفۃ الاحوذی نے کلام کیا ہے تفصیل کے لیے مآخذ کی طرف رجوع فرمائیں۔
یاد رہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز تراویح کی تعداد رکعات کے اثبات کا مدار حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یہ حدیث نہیں مدار حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کی حدیث(مَا كَانَ يَزِيدُ ...الخ)اور(صلاة اليل)میں وارد شدہ دیگر احادیث صحیحہ مرفوعہ ہیں ویسے آپ حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی ہی دوسری حدیث: (جاء ابن بن كعب الخ) بھی آثار السنن وغیرہ میں ملاحظہ فرمائیں۔
4۔ رابعاً:پہلے تو ہم ذکر کر رہے تھے کہ صحیح مرفوع احادیث میں پیغمبرخدا صلی اللہ علیہ وسلم کی رکعات تراویح کی تعداد مذکورہے جب کہ اثبات کے لیے حدیث کا صحیح ہونا ضروری نہیں بلکہ اثبات کے لیے حسن حدیث بھی کافی ہوتی ہے۔ (كما لا يخفي علي اهل العلم)اس لیے صاحب رسالہ کے بیان میں سند کو صحیح سے مقید کرنا درست نہیں الایہ کہ صحیح سے صحیح مصطلح مراد نہ ہو صحیح بمعنی قابل احتجاج ہو پھر بھی سند کا لفظ نہ بولنا چاہیے تھا کہ کیونکہ سند صحیح یا حسن ہونے کو حدیث یا اثر کا صحیح یا حسن ہونا لازم نہیں والتفصیل فی موضعہ۔
2۔ حضرت سائب بن یزید رضی اللہ عنہ کا اثر:
1۔ اولاً:صاحب رسالہ لکھتے ہیں:
|