3۔ عہد فاروقی سے متعلق دیگر آثار:
1۔ اولاً:یزید بن رومان، یحییٰ بن سعید انصاری، محمد بن کعب قرظی اور عبدالعزیز بن رفیع کے چاروں آثار مرسل و منقطع ہیں چنانچہ صاحب آثار السنن نے اس بات کی تصریح فرمائی ہے اور صاحب رسالہ کو بھی اس کا اعتراف ہے جیسا کہ حاشیہ ص13سے ظاہر ہے مگر ان کا خیال ہے کہ مرسل و منقطع حجت ہوتا ہے احناف کے ہاں تو مطلقا اور شوافع کے ہاں مقیداً۔ لیکن انہیں یہ بات معلوم ہونا چاہیے کہ مرسل کی حجیت میں یہ اختلاف تب ہے جب ارسال کرنے والا راوی صرف ثقات سے ارسال کرنے کا التزام کرے اور اگر ارسال کرنے والا راوی ثقات وغیر ثقات ہمہ قسم کے رواۃ سے ارسال کرتا ہوں تو پھر اس کا مرسل بالاتفاق حجت نہیں چنانچہ اصول حدیث کی داخل نصاف متداول و مشہور کتاب شرخ نخبہ میں ہے:
( فإن عرف من عادة التابعي أنه لا يرسل إلا عن ثقة، فذهب جمهور المحدثين إلى التوقف، لبقاء الاحتمال، وهو أحد قولي أحمد، وثانيهما: يقبل مطلقًا، وقال الشافعي رضي اللّٰه عنه: يُقبل إن اعتضد بمجيئه من وجه آخر يباين الطريق الأولى مسندًا كان أو مرسلًا ليترجّح احتمال كون المحذوف ثقة في نفس الأمر ونقل ابوبكر ن الرازي من الحنفية وابو الوليد الباجي من المالكية ان الراوي اذا كان يرسل عن الثقات وغيرهم لا يقبل مرسله اتفاقًا) (ص55)
”اگر تابعی کی عادت مشہور ہو کہ وہ صرف ثقہ سے ہی ارسال کرتا ہے تو جمہور محدثین کا مذہب یہ ہے کہ اسے قبول کرنے میں توقف کیا جائے گا کیونکہ احتمال باقی ہے اور احمد کا ایک قول بھی یہی ہے اور امام احمد کا دوسرا
|