حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ کے فیصلہ کے لفظوں سے نہیں ملتے چنانچہ اس کی تفصیل آرہی ہے تو سوچئے کہ قاری صاحب کا حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ کے فیصلہ (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الخ ) کو صرف طحاوی کے الفاظ سے مخصوص کرنا صرف منہ کی بات نہیں تو اور کیا ہے؟
4۔ چوتھے لفظ:
(عَنْ اِبْنِ مَسْعُوْدٍ قَاَل صَلَّيْتُ مَعَ رَسُولِ اللّٰهِ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟، وأبي بكر وعمر فلم يرفعوا أيديهم إلّا عند الافتتاح)[1] حوالہ”بیہقی، دارقطنی وغیرہ۔ “(قاری صاحب کا رقعہ نمبر5ص5، 7)
اس مقام پر بھی قاری صاحب نے وہی طرز عمل اختیار فرمایا ہے جو انھوں نے جامع ترمذی سے حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت نقل کرتے وقت اختیار فرمایا تھا کہ انھوں نے جامع ترمذی سے روایت تو نقل فرما دی تھی مگر انھوں نے اسی جامع ترمذی کے اسی باب میں موجود حضرت عبد اللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ (وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ الخ ) کا نام تک نہیں لیا تھااور اب بھی انھوں نے ایسا ہی کیا کہ مندرجہ بالا الفاظ تو انھوں نے بیہقی اور دارقطنی کے حوالہ سے نقل کر دیے ہیں اور ان دونوں بزرگوں کے ان کتابوں میں وہیں موجود تضعیف کے فیصلوں کا نام تک نہیں لیا تو سنیے حافظ دارقطنی ان الفاظ کو اپنی سنن میں بواسطہ محمد بن جابر ذکر فرمانے کے بعد لکھتے ہیں (وَكَانَ ضَعِيْفًا) محمد بن جابر ضعیف تھے حافظ بیہقی بھی ان ہی الفاظ کو اسی محمد بن جابر کے واسطے سے بیان کرنے کے بعد وہی (وَكَانَ ضَعِيْفًا) والا جملہ نقل فرماتے ہیں۔
ان الفاظ کے راوی محمد بن جابر کا حال:
محمد بن جابر کے بارہ میں جو کچھ”الجوہرالنقی“ والے نے لکھا ہے وہ تارکین
|