رفع الیدین کے لیے کوئی مفید نہیں کیونکہ اس کے کلام کا مال ہے(ومع ماتكلم فيه من تكلم يكتب حديثه) اس میں کلام کرنے والوں کے کلام کے باوجود اس کی حدیث لکھی جاتی ہے اور اہل علم جانتے ہیں کہ کسی راوی کی حدیث کے لکھے جانے سے اس کی حدیث کا قابل احتجاج ہونا لازم نہیں آتا نیز محمد بن جابر کے متعلق حافظ ابن حجر رحمۃ اللہ علیہ تقریب میں لکھتے ہیں:
(صدوق، ذهبت كتبه، فساء حفظه، وخلط كثيرا، وعمى فصار يلقن، ورجحه أبو حاتم على ابن لهيعة)
سچا ہے اس کی کتابیں ضائع ہو گئیں تو اس کی یا داشت خراب ہو گئی اور اسے بہت زیادہ اختلاط ہو گیا اور وہ نابینا ہو گیا تو اسے تلقین کی جاتی اور ابو حاتم نے اسے ابن لہیعہ پر ترجیح دی ہے(فائدہ یاد رہے کہ اس کے سچے اور ابن لہیعہ سے اچھے ہونے سے اس کی حدیث کا قابل احتجاج ہونا ثابت نہیں ہوتا۔ (كما لا يخفي علي من له مراس في فن اصول الحديث واسماء الرجال) نیچے تہذیب التہذیب سے محمد بن جابر کا حال سنیے:
1۔ (عن ابن معين: كان أعمى واختلط عليه حديثه، وكان كوفياً فانتقل إلى اليمامة، وهو ضعيفا)
امام بخاری کے استاد حضرت یحییٰ بن معین رحمۃ اللہ علیہ جنہیں بعض مقلدین نے خواہ مخواہ حنفی کہا ہے فرماتے ہیں”محمد بن جابر نابینا تھے اور ان پر ان کی حدیث مختلط ہو گئی اور وہ کوفی تھے پس یمامہ کی طرف منتقل ہو گئے اور وہ ضعیف ہیں۔ “
(وقال عمرو بن علي صدوق كثير الوهم متروك الحديث)
امام بخاری کے استاد حضرت ابو حنس عمرو بن علی الفلاس فرماتے ہیں”محمد بن جابر صدوق، کثیر الوہم اور متروک الحدیث ہیں“صاحب الجواہر النقی نے حضرت فلاس کا قول”صدوق“تو نقل کیا اور ان کے قول کے آخری حصہ (كثير الوهم متروك الحديث) کو چھوڑ گئے ہیں پھر اس کی طرف ادنیٰ اشارہ تک بھی نہیں کیا قاری صاحب تو شاید اس کو بھی اللہ تعالیٰ کے ڈر پر ہی محمول فرمائیں۔
|