Maktaba Wahhabi

846 - 896
اس سے صاف ظاہر ہے کہ صحابی کا قول سنت یا قیاس میں شامل ہو سکے تو آپ کے نزدیک دلیل ہوگا ورنہ نہیں۔ پھر صحابی کا قول یا فعل ہونے کی کیا قیمت ہوئی؟پھر تو اصل حجت سنت اور قیاس ہی ٹھہرے احناف کے ہاں صحابہ کے اقوال کو حجت ماننے کا نقشہ آگے آرہا ہے۔ صحابہ کی نقل معتبر ہونا: اس مقام پر قاضی صاحب نے ایک مفروضہ قائم کرکے خوب اپنے دل کی بھڑاس نکالی ہے وہ یہ کہ میں(نعوذباللہ) صحابہ کی نقل کو معتبر نہیں سمجھتا۔ چنانچہ فرماتے ہیں: ”صحابہ کے اقوال اگر معتبر نہ ہوں تو سارادین خطرہ میں پڑجاتا ہےکیا قرآن کا نقل صحابہ کا عمل نہیں پورے دین کا نقل قرآن مجید کو جمع کرنا صحابہ کا عمل نہیں جب آپ کے ہاں نقل ناقل قابل اعتبار نہیں تو منقول بھی معاذ اللہ قابل اعتبار نہیں ہوگا۔ “(اظہار المرام ص15) قاضی صاحب کا طریقہ یہ ہے کہ جہاں وہ جواب نہ دے سکتے ہوں دوسرے کے ذمہ اپنے پاس سے ایک بات لگا دیتے ہیں پھر زور شور سے اس کی تردید فرماتے ہیں۔ کیا یہ ربانی علماء کا طریقہ ہے؟(تجاوز اللّٰه عن ذنبک الجلي والخفي) فرمائيے! میرے سارے رسالے میں کس مقام پر کہا گیا ہے کہ صحابی کی نقل معتبر نہیں۔ صحابی کی نقل معتبر ہونا اور صحابی کا اپنا قول وفعل شرعی دلیل ہونا کیا ایک بات ہے؟جو بات صحابی نے نقل کی وہ تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہوا اللہ کا کلام یاآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا قول یا فعل ہے۔ رہا اس کا آگے پہنچانا اور نقل کرنا تو وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان(بَلِّغُوا عَنِّي وَلَوْ آيَةً)کی تعمیل ہے جو صحابہ نے بھی کی اور بعد کے آئمہ نے بھی۔ مگر کسی صحابی یا تابعی یا بعد کے ثقہ راوی کے نقل میں معتبر ہونے کے باوجود اس کا کہنا قول یا فعل ہمارے لیے شریعت نہیں ہے۔ اگر کسی صحابی کے قول وفعل کو حجت اور دلیل شرعی نہ سمجھنے کا مطلب یہ ہے کہ اس صحابی کی نقل معتبر نہیں تو اس کا مطلب تو یہ ہے کہ
Flag Counter