Maktaba Wahhabi

530 - 896
کلائی کیا ہے۔ اسی لیے اوپر ترجمہ میں کلائی لکھاگیا ورنہ ذراع کا لفظ بڑی انگلی کی طرف سے لے کر کہنی تک کے حصہ پر بولا جاتا ہے۔ پر باندھنےکا ذکر تو ہے جس سے کسی کو مجال انکار نہیں اور سب جانتے ہیں کہ ذراع کہنی والے جوڑ تک ہے تو اب اگردائیں ہاتھ کو بائیں کہنی والے جوڑ تک پہنچایا جائے گا تبھی مذکور بالا حکم پر عمل ہو گا۔ دیکھئے وضو میں چہرہ دھونے کا حکم ہے اب پورا چہرہ دھویا جائے گا۔ تبھی چہرہ دھونے والے حکم پر عمل ہو گا۔ ورنہ نہیں۔ بالکل اسی طرح دائیں ہاتھ کو بائیں کہنی والے جوڑ تک پہنچایا جائے گا تبھی سہل بن سعد کی حدیث میں مذکور حکم پر عمل ہوگا ورنہ نہیں۔ اور واضح چیز ہے کہ جب اس کیفیت سے ہاتھ باندھے جائیں تو ہاتھوں کے زیر ناف جانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ الا بتکلف شدید اور قرآن مجید میں (وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ) اور میں تکلف کرنے والوں سے نہیں ہوں۔ نوٹ:سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کی یہ حدیث ابن عباس رضی اللہ عنہ، قبیصہ بن ہلب اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی احادیث کے علاوہ ہے اور ہے بھی صحیح، اس لیے صاحب تحریر کا لکھنا اس کے علاوہ ”سینے پر ہاتھ باندھنے کے جو دلائل ہیں وہ ان روایتوں سے بھی ابتر ہیں“بالکل غلط ہے۔ تیسری حدیث: (عَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هَلْبٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ رَأَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَنْصَرِفُ عَنْ يَمِينِهِ وَعَنْ يَسَارِهِ وَرَأَيْتُهُ قَالَ يَضَعُ هَذِهِ عَلَى صَدْرِهِ وَصَف يَحْيَى الْيُمْنَى عَلَى الْيُسْرَى فَوْقَ الْمِفْصَلِ‏.‏ رواه احمد واسناده حسن) (آثار السنن ص67باب وضع الیدین علی الصدر) ”قبیصہ بن ہلب اپنے باپ ہلب سے بیان کرتے ہیں میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا آپ دائیں اور بائیں دونوں جانبوں سے پھرتے اور میں نے آپ کو دیکھا آپ اس کو اپنے سینے پر رکھتے۔ یحییٰ نے بیان کیا کہ دائیں کو بائیں کے
Flag Counter