قاضی صاحب کا ایک اور وہم:
قاضی صاحب فرماتے ہیں:
”اور کیا امام بخاری نے باب رَفْعِ اليَدَيْنِ إِذَا قَامَ مِنَ الرَّكْعَتَيْنِ میں عبداللہ بن عمر کے عمل سے استدلال نہیں فرمایا؟ تو امام بخاری کے بارے میں کیا فرمان ہوگا آیا وہ بھی غلطی پر تھے؟(اظہار المرام ص15)
قاضی صاحب کو غور سے دیکھ لینا چاہیے تھا کہ اس باب میں امام بخاری جو ابن عمر کا عمل لائے ہیں اس کے آخر میں یہ لفظ موجود ہیں یا نہیں(وَرَفَعَ ذَلِكَ ابْنُ عُمَرَ إِلَى نَبِيِّ صَلَّى اللّٰه عَلَيْهِ وَسَلَّمَ) یعنی ابن عمر نے یہ فعل نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان فرمایا۔ کیا مرفوع الی النبی صلی اللہ علیہ وسلم سے استدلال ابن عمر کے عمل سے استدلال ہے۔ اور کیا کتاب کے بعض حصے کو چھپاجانا علمائے ربانیین کو زیب دیتا ہے؟ (تجاوز اللّٰه عن ذنبک الجلي والخفي)
آمین بالجہر:
آمین بالجہر کے متعلق جو کچھ قاضی صاحب نے اظہار المرام میں لکھا ہے اس کا موازنہ“ ایک دین اور چار مذہب“میں مذکور بحث کے ساتھ کر لیا جائے مزید لکھنے کی ضرورت نہیں صرف تین باتوں کے متعلق کچھ عرض کرتا ہوں۔
1۔ قاضی صاحب نے وَلَا الضَّالِّينَ کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سکتہ فرمانے کی حدیث نقل کی تھی میں نے اس پر لکھا تھا:
”ابو داؤد کی روایت جو آپ نے نقل کی ہے وہ صحیح نہیں کیا آپ اسے صحیح سمجھتے ہیں؟اور اگر صحیح سمجھتے ہیں تو کیا پوری حدیث پر آپ کا عمل ہے؟سوچ سمجھ کر لکھیں۔ “(ایک دین ص45)
اس پر قاضی صاحب نے حدیث کے صحیح ہونے کو اختیار کیا ہے اور کہا ہے سمرہ سے حسن کا سماع ثابت ہے۔ اگر ہم سمرہ سے حسن کا یہ حدیث سننا مان بھی لیں، تو
|