Maktaba Wahhabi

314 - 896
سے روزانہ ہزاررکعات پڑھنا بھی بیان فرماتے ہیں اور مولانا کاندھلوی ہیں کہ تمام صحابہ، تابعین اور جمیع آئمہ ومجتہدین کو بیس رکعت پڑھنے والے بنا کر اس کے ذریعے بیس رکعت سنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دلیل مہیا فرمارہے ہیں آپ غور فرمائیں کہ جب بنیاد اتنی کمزور ہو تو اس پر اٹھائی جانے والی عبارت کا حال کیا ہوگا؟ 2۔ تراویح اور تہجد کو الگ الگ قراردینا: دوسری کوشش جس کی طرف پہلے کسی حنفی کا خیال بھی نہیں گیا تھا یہ باور کروانا ہے کہ تراویح اور تہجد دو الگ الگ نمازیں ہیں۔ گیارہ رکعتوں والی روایات اگرچہ صحیح ہیں مگر یہ تہجد سے متعلق ہیں۔ تراویح سے ان کا تعلق نہیں۔ اس جدید اختراع پر بعض حضرات کو اتنا ناز ہے کہ ان کے خیال کے مطابق اس کا جواب ہو ہی نہیں سکتا چنانچہ ضلع گوجرانوالہ کے مشہورحنفی عالم قاضی عصمت اللہ صاحب خطیب قلعہ دیدارسنگھ کی اسی بنیاد پر ہمارے فاضل بھائی مولانا حافظ عبدالمنان صاحب سے تحریری گفتگو ہوئی ساتھ ہی دوسرے آثار و احادیث کا ذکر بھی ہوتا رہا مگر قاضی صاحب چوتھے پانچویں رقعے پر ہی قلم چھوڑ بیٹھے۔ یہ مراسلت تحقیق التراویح کے نام سے طبع ہو چکی ہے۔ نہایت دلچسپ اور قابل مطالعہ چیز ہے اور اللہ کے فضل سے بہت سے لوگوں کے لیے باعث ہدایت و اطمینان ہوئی ہے۔ 3۔ مؤطا میں فاروقی فرمان گیارہ رکعت کو ضعیف قراردینے کی کوشش: تیسری کوشش موطا کی صحیح روایت کو کہ”حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ابی بن کعب اور تمیم داری رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو گیارہ رکعات کا حکم دیا تھا“مضطرب ثابت کرکے ناقابل اعتبار ٹھہرانے اور اس کے مقابلے میں ان ضعیف آثار کو صحیح قرار دینے کی کوشش ہے جن میں حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ، عثمان اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے بیس رکعت پڑھنے یا حکم دینے کا ذکرہے۔ یہ کوشش دوسرے کئی حضرات کے علاوہ ضلع گجرات کے ایک حنفی عالم مولوی غلام سرور صاحب نے بھی کی اور ”بیس رکعت تراویح کی شرعی حیثیت “نامی رسالہ میں
Flag Counter