Maktaba Wahhabi

816 - 896
یہ سب قاضی صاحب کی عنایت ہے۔ ویسے مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں نے چند حوالے پوچھ لیے یا اکابر کی چند عبارتیں نقل کرکے یہ پوچھ لیا کہ ان عبارات والوں پر آپ کیا فتویٰ صادر کریں گے تو اس میں قاضی صاحب کو مجھے ڈرانے دھمکانے کا حق کس طرح حاصل ہوگیا کہ وہ اسے استعمال نہ کرنے کا احسان جتلا رہے ہیں؟ میرا رسالہ”ایک دین اور چار مذہب“سب کے سامنے ہے۔ میں کوئی دعویٰ نہیں کرتا اس کا دائرہ تہذیب میں ہونا یا نہ ہونا ہر شخص دیکھ سکتا ہے۔ البتہ قاضی صاحب کے تہذیب کے دامن کو نہ چھوڑنے اور میرے اکابر پر ہاتھ صاف نہ کرنے کی صرف ایک مثال پیش کرتا ہوں جو میرے مرحوم استاذ کے متعلق ہے میرے متعلق انھوں نے تہذیب کا جو انداز اختیار کیا ہے نا چیز اس سے قطع نظر کرتا ہے؎ هَنيئاً مَريئاً غَيرَ داءٍ مُخامِرٍ لِعَزَّةَ مِن أَعراضِنا ما اِستَحَلَّتِ تہذیب کا نمونہ: استاذ مرحوم مولانا حافظ محمد صاحب گوندلوی نے خیر الکلام کے شروع میں اختلاف کی دو قسمیں بیان کی ہیں، اصولی اختلاف اور فروعی اختلاف۔ اور ان کی اصولی و فروعی کی تقسیم قاضی صاحب والی تقسیم سے ہے بھی بالکل مختلف، جیسا کہ آئندہ آئے گا۔ مجھے نہ قاضی صاحب والی اصولی فروعی تقسیم کی دلیل مل سکی نہ حضرت استاذ صاحب والی کی۔ اس لیے میں اسے ان کی اپنی اپنی اصطلاح مان سکتا ہوں مگریہ کوئی شرعی تقسیم نہیں۔ آپ زیادہ سے زیادہ یہ کہہ سکتے ہیں کہ میں نے دلیل معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اپنے استاذ کی ایک بات سے اتفاق نہیں کیا مگر قاضی صاحب کی تہذیب ملاحظہ فرمائیں لکھتے ہیں: ”اب آپ کے لیے دو ہی راستے ہیں یا تو حافظ مرحوم کی بھی تردید فرمائیں تاکہ غیر مقلدین پر بھی عیاں ہوجائے کہ خیر الکلام جھوٹ کا پلندا ہے یا پھر
Flag Counter