صاحب تحریر لکھتے ہیں”امام مجتہد جس عمل کو اختیار کرے وہ اس کی طرف سے تصحیح ہوتی ہے“ اور اس اُصول کی رو سے لازم آتا ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ نے ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کی تصحیح فرمائی ہے کیونکہ حضرت علی رضی اللہ عنہ امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے بڑے مجتہد ہیں اور انہوں نے ناف سے اوپر ہاتھ باندھنے کو اختیار بھی فرمایاہے تو اب کیا وجہ ہے کہ صاحب تحریر اور ان کے ہمنوا حضرت علی رضی اللہ عنہ کی تصحیح کو چھوڑ کر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کی حتصیح پر جاگرے ہیں آیا حضرت علی رضی اللہ عنہ ان کے کچھ نہیں لگتے۔ سچ ہے جن کو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہوتے ہوئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث وسنت کی کوئی پروانہیں، انہیں حضرت علی رضی اللہ عنہ کے عمل اور ان کی تصحیح کی خاک پروا ہوگی۔
نوٹ نمبر 2:صاحبِ تحریر کا لکھا ہوا قاعدہ”مجتہد جس عمل کو اختیار کرے وہ اس کی طرف سے تصحیح ہوتی ہے“ دلیل کی رو سے ثابت نہیں تفصیل کتابوں میں دیکھ لیں۔ ہم نے اُوپر جو کچھ لکھا ہے وہ صاحب ِ تحریر کی زبان میں لکھا ہے۔
نوٹ نمبر 3 :صاحبِ تحریر کے قول”ان احادیث کے راوی کو محدثین کرام“ الخ سے پتہ چلتا ہے کہ وہ ان تینوں احادیث(ابن عباس رضی اللہ عنہ قبیصہ بن ہلب رضی اللہ عنہ اور وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کی احادیث) کا راوی ایک ہی شخص کو سمجھ رہے ہیں حالانکہ یہ چیز انتہائی مضحکہ خیز ہے پھر ان کا اپنے اس قول میں راوی کوغیر محفوظ قراردینا پھر اسے محدثین کرام کی طرف منسوب کرنا ان کی اصول حدیث اور فن حدیث میں کامل رسائی اور بالغ نظری کی غمازی کررہا ہے۔ فیا للعجب۔
ایک سوال:
صاحب تحریر لکھتے ہیں” اسی بناء پر امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ نے زیر ناف کو اختیار کیا“ تو ہم پوچھتے ہیں یہ” اسی“ کا اشارہ کس طرف ہے۔ پہلے اسے متعین فرمائیں پھر اس چیز کو امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ سے ثابت کریں یاد رہے یہ سوال امام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کے اس مسئلہ میں مذہب اور اس کی سند کے متعلق نہیں بلکہ ان کے مذہب کی”اسی بناء“ کے متعلق ہے۔
|