روایت کو ترجیح ہوگی جیسا کہ تینوں بزرگوں کی روایات کی اسانید پر کلام سے ظاہر ہے مگر اس میں یہ نقص ہے کہ ترجیح کی راہ تب اختیار کی جاتی ہے جب رواۃ کے بیانات میں مخالفت ومنافات ہو اور وہ اس مقام پر ہے ہی نہیں جیساکہ تدبر وتامل کرنے سے ظاہر ہے ہاں صاحب رسالہ کے انداز فکر کو پیش نظر رکھا جائے تو پھر حضرت سائب بن یزید کے تینوں شاگردوں کے بیانات باہم مختلف ہیں۔
نیز یزید بن خصیفہ اورحارث بن عبدالرحمان کے بیانات میں نہ تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے حکم کا ذکر ہے اور نہ ہی ان کے عمل کا بلکہ ان میں تو یہ بھی نہیں بتایاگیا کہ لوگوں کے بیس رکعات پڑھنے کاحضرت عمر رضی اللہ عنہ کو علم تھا یا نہیں تو ان دوبزرگوں کے بیانات سے بیس رکعات کے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی سنت ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں۔
2۔ ترجیح وتطبیق کی تحقیق:
حضرت المولف تحریر فرماتے ہیں:
”حافظ ابن عبدالبر المالکی المتوفی 463ھ نے دونوں صورتیں اختیار کی ہیں گیارہ اور اکیس میں اکیس کو ترجیح(قوت) دی اور گیارہ کومرجوح (کمزور) قراردیا اور اس کے ساتھ تطبیق کی یہ صورت بھی لکھی کہ پہلے گیارہ کا حکم دیا ہوپھر قیام میں تخفیف کے لیے گیارہ کی بجائے اکیس رکعتیں کردی گئی ہوں اور زرقانی مالکی نے اسی تطبیق کو پسند کیا اور کہا کہ امام بیہقی نے بھی مختلف روایتوں کو اسی طرح جمع کیا ہے(زرقانی شرح مؤطا جلد1 ص 215) اور دیگر ائمہ حدیث نے بھی اسی تطبیق کو پسند کیا خصوصاً حافظ ابن حجر عسقلانی فتح الباری میں اور علامہ شوکانی نیل الاوطار میں تطبیق کی صورت اختیار کی۔ “اھ(ص 24)
1۔ اَوَّلاً: قَا لَ الزَّرْ قَانيْ فِيْ شَرْح الْمُؤَطَّا:( أَنْ يَقُومَا لِلنَّاسِ بِإِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً) قَالَ الْبَاجِيْ: لعل عمر أخذ ذلك يعني أمر الناس بالإحدى عشرة ركعة من صلاة النبي صلى اللّٰه عليه وسلم، ففي حديث عائشة أنها سئلت عن صلاته
|