وَسَلَّمَ كما توهمه بعض الناس اليوم، بل قد اثبت فيه العدد المعين فيها عنه صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَيْثُ قَالَ: لا يَزِيدُ فِي رَمَضَانَ وَلاَ فِي غَيْرِهِ عَلَى ثَلَاثَ عَشْرَةَ رَكْعَةً:وانما نفيٰ فيه توقيت العدد المعين فيها عن النبي صَلَّي اللّٰهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وهذا هو المراد بقول السيوطي :ولوثبت عددها بالنص لم تجز الزيادة عليه ولاهل المدينة الصدر الاول كانوا اورع من ذالك وبقول الشوكاني الماضي فقصر الصلاة المسمَّاة بالتراويح على عددٍ معين الخ
” میں کہتا ہوں :حافظ ابن تیمیہ رحمۃ اللہ علیہ نےاپنے اس کلام میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سےتراویح میں معین عدد کے ثبوت کی نفی نہیں فرمائی جیسا کہ آج کل بعض لوگوں کو وہم ہوا ہے بلکہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے تراویح میں معین عدد یہ کہہ کرثابت فرمایا کہ رمضان اورغیررمضان میں تیرہ رکعات سے زیادہ نہیں پڑھتے تھے۔ نفی صرف اسی بات کی ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی معین عدد مقرر فرمادیا ہو۔ یہی مطلب سیوطی کے اس قول کا ہے جس میں وہ فرماتے ہیں:” اگرنص کے ساتھ(صاف لفظوں میں) اس کی تعداد ثابت ہوتی تو اس سےزیادہ کرنا کبھی جائز نہ ہوتا اور اہل مدینہ اور صدر اول کے لوگ اس سے زیادہ بچنے والے تھے“ اور شوکانی کے گزشتہ قول” اس نماز کو جس کا نام تراویح ہے کسی معین عدد پر بند کرنا الخ“ کا مطلب بھی یہی ہے۔ “
3۔ حضرت المؤلف کی ایک تحریر دل پذیر:
بندہ نے اس تبصرہ کے تقریباً انتالیس صفحات بدست میاں محمد صادق متعلم جامعہ عربیہ۔ جی۔ ٹی۔ روڈ گوجرانوالہ حضرت المولف کو بھیجے اس کے بعد میاں محمد صادق موصوف ہی صاحب رسالہ کی طرف سے ایک تحریر فقیر کے پاس لائے جو درج ذیل ہے:
|