ہونے کے قائل ہیں ورنہ انہیں مندرجہ بالا بات کہنے کی کوئی ضرورت نہ تھی صرف اتنا ہی کہہ دیتے کہ یہ فیصلہ فلاں لفظ سے متعلق ہے۔
چوتھی شہادت:
حافظ ابن حجر کا کلام آپ اس سے پہلے میرے رقعہ نمبر 1 میں ملاحظہ فرماچکے ہیں جو اس بات میں صریح ہے کہ جس کو امام ترمذی نے حسن اور ابن حزم نے صحیح کہا اسی کو حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے غیرثابت قراردیا ہے تو حافظ صاحب بھی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ کوترمذی، نسائی اور ابوداود والے الفاظ سے بھی متعلق سمجھتے ہیں۔
پانچویں شہادت:
حافظ زیلعی حنفی رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی کتاب نصب الرایہ میں ترمذی، نسائی اور ابوداود کے حوالہ سے حضرت عبداللہ بن مسعودرضی اللہ عنہ کی روایت کو نقل کیا پھر انھوں نے حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ کے فیصلہ(وَلَمْ يَثْبُتْ حَدِيثُ ابْنِ مَسْعُودٍ) الخ کا جواب ان الفاظ میں دیا:
(وعدم ثبوت الخبر عند ابن المبارك لا يمنع من ثبوته عند غيره وكيف وهو يدور على عاصم بن كليب، وھوثقۃ من رواۃ مسلم وصححه ابن قطان المغربي في «كتاب الوهم والإيهام» وكذلك صححه ابن حزم الأندلسي) ہ اھ(معارف السنن بحوالہ نصب الرایہ) اس عبارت سے صاف صاف پتہ چل رہا ہے کہ حافظ زیلعی حنفی کے نزدیک بھی حضرت عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ علیہ نے اسی روایت کو غیر ثابت قراردیا جس روایت کو ابن حزم وغیرہ نےصحیح کہا اور وہ ترمذی، نسائی اور ابوداؤد وغیرھم والی روایت ہی ہے یاد رہے مندرجہ بالا عبارت (وعدم الثبوت الخبر الخ) کو صاحب نصب الرایہ نے ابن دقیق العید سے نقل فرمایا ہے اور اس پر کسی قسم کی کوئی حرف گیری نہیں کی
|