Maktaba Wahhabi

845 - 896
خلاصہ یہ ہے کہ ابن مسعود کی ترک رفع یدین کی روایت کئی علتوں کی وجہ سےغیر ثابت ہے۔ قاضی صاحب نے اپنی پہلی تحریرمیں ترمذی کااسے حسن کہنا اور ابن حزم کا صحیح کہنا بیان کیاتھا اس کاجواب میری پہلی تحریر میں گزر چکا ہے اب انہوں نے بزرگوں کے علاوہ ابن عبدالبر اور ابن حجر وغیرہ کو بھی اسےصحیح یا حسن کہنےوالوں میں شمار کیا ہے، مگر بلاحوالہ۔ مجھے ان کے حوالہ کاانتظار رہے گا کہ انہوں نے یہ کہاں فرمایا ہے؟ کیا کسی صحابی کا قول دین میں حجت ہے؟ قاضی صاحب نے ترک رفع کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ایک اثر پیش کیا تھا۔ میں نے اس پر لکھا تھا: ” آپ لوگوں کے نزدیک دلیلیں چار ہیں: کتاب، سنت، اجماع، قیاس۔ فرمائیے صحابہ کے یہ افعال اگرثابت بھی ہوں تو کتاب ہیں یاسنت یا اجماع یا قیاس الخ“۔ (ایک دین اورچار مذہب ص 41) قاضی صاحب فرماتے ہیں: ”جواباً عرض ہے کہ صحابی کا قول ہمارے ہاں حجت ہے اگر تخصیص کی کوئی دلیل نہ ہو (مع باقي الشروط المذكورة في كتب الاصول)اور دلائل بھی چارکے چار رہتے ہیں اس لیے کہ صحابی کا قول اگر مدرک باالعقل ہے تو وہ قیاس ہے اور اگر مدرک باالعقل[1]نہ ہو یعنی عقل اس کو سمجھنے سے قاصرہو اور عقل دخل نہ دے سکے جیسے ثواب عقاب کی بات ہوئی تو ایسا قول محمول علی السماع ہے تو پہلی قسم قیاس میں اور دوسری قسم حدیث میں داخل ہے الخ۔ “
Flag Counter