اور ایسے طبیب (حکیم ) ہیں جو اپنے مریض کو اندھیرے میں رکھنا پسند نہیں کرتے بلکہ اسے دوادے کر اس کے اجزاء بھی بتادیتے ہیں تاکہ وہ خود بھی غورکرسکے اور دوسرے طبیبوں سے بھی مشورہ لے سکے یہ نہیں کہ طبیب نے پسا ہوا سفوف دے دیا جس کے اجزاء اگروہ معلوم کرنا چاہے تو اسے لیبارٹری والوں کا محتاج ہوناپڑے جو محض ظن وتخمین(اندازے) کی بنا پر اس کے اجزاء کی تعیین کرتے پھریں یقین سے دوا کا ایک جز بھی نہ بتاسکیں۔ مریض اس بات پر ہی خوش ہے کہ میرا طبیب بڑا لائق ہے خواہ طبیب نے غلطی سے اسے سم الفار کی پڑیہ ہی دے دی ہو۔ طبیب بے شک نیک نیت تھا مگر غلطی کا خمیازہ بہرحال مریض کو بھگتنا پڑے گا۔
آپ صحیح بخاری اوردوسری کتب احادیث اٹھا کر دیکھیں یہاں حدیث بھی جمع ہے ہر حدیث کے ساتھ استنباط مسائل(فقہ) بھی ہے بلکہ استنباط کی مشق بھی ساتھ ساتھ کروائی جاتی ہے گویا یہ محدث بھی ہیں، مجتہد بھی اور مجتہد گربھی جن کے مطالعہ سے بے شمار مجتہدین مثلاً داود بن علی، ابن حزم، ابن تیمیہ، ابن قیم، ابن قدامہ، عزیز بن عبدالسلام، ابن حجر، شوکانی، نواب صدیق حسن خاں وغیرہم رحمہم اللہ تعالیٰ پیدا ہوئے اور اب بھی یہ کتابیں ہر مطالعہ کرنے والے کو فن حدیث سکھاتی ہیں اور اجتہاد کا سلیقہ بھی۔ ان کامطالعہ کرتے ہوئے کبھی اللہ تعالیٰ کے متعلق یہ بدگمانی پیدا نہیں ہوتی کہ اس نے قرآن وحدیث کو سمجھنے اور ان سے مسائل کے استنباط کا دروازہ فلاں صدی کے بعد بند فرمادیا ہے۔
فقہ اہل رائے:
ایک طرف یہ محنت شاقہ ہورہی تھی دوسری طرف بعض شہروں میں رہنے والے کچھ لوگوں نے اس محنت کی بجائے ایک دوسری راہ اختیار کی چنانچہ شاہ ولی اللہ لکھتے ہیں:
(وذلك أنه لم يكن عندهم من الأحاديث والآثار، ما يقدرون به
|