Maktaba Wahhabi

779 - 896
گویا بیماری میں مایوسی ہو تو اللہ تعالیٰ کی بجائے مولانا رشید احمد گنگوہی کی طرف متوجہ ہو کر عرض معروض کی جاتی تھی۔ اور ایسا کرتے ہی بیماری غائب ہو جاتی۔ اس میں بھی بزرگوں کا علم الغیب، ان سے مدد چاہنا اور ان کا مدد کرنا موجود ہے۔ چوتھی حکایت: 4۔ مولانا اشرف علی تھانوی کا سوانح نگار اشرف السوانح میں تھانوی صاحب کے پر دادا محمد فرید صاحب کی وفات کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ: ”کسی بارات میں تشریف لے جا رہے تھے کہ ڈاکوؤں نے آکر بارات پر حملہ کیا۔ ان کے پاس کمان تھی اور تیر تھے۔ انھوں نے ڈاکوؤں پر دلیرانہ تیر برسانا شروع کیے، چونکہ ڈاکوؤں کی تعداد کثیر تھی اور ادھر سے بےسرو سامانی تھی۔ مقابلہ میں شہید ہو گئے۔ “ اس کے بعد کیا ہوا؟ ”شہادت کے بعد ایک عجیب واقعہ ہوا۔ شب کے وقت اپنے گھر مثل زندہ کے تشریف لائے اور اپنے گھر والوں کو مٹھائی لا کر دی۔ اور فرمایا، اگر تم کسی سے ظاہر نہ کرو گے تو اس طرح سے روز آیا کریں گے۔ لیکن ان کے گھر کے لوگوں کو یہ اندیشہ ہوا کہ گھر والے جب بچوں کو مٹھائی کھاتے دیکھیں گے اس لیے ظاہر کردیا اور آپ تشریف نہیں لائے۔ یہ واقعہ خاندان میں مشہور ہے۔ “(اشرف السوانح ج1ص12) شہادت کے بعد زندوں کی طرح آنا، مٹھائی لانا، روزانہ آنے کا مشروط وعدہ کرنا، پھر قبر میں ہی جان لینا کہ اہل خانہ نے لوگوں کو بتا دیا ہے اور پھر نہ آنا، بزرگوں کے علم اور قدرت کے واضح نمونے ہیں۔ پانچویں حکایت: 5۔ علمائے دیوبند کے عقیدہ کا بہترین اظہار اس حکایت سے بھی ہوتا ہے جو ارواح
Flag Counter