حضرت شاکر صاحب فرماتے ہیں”لیکن یہ روایت(حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت)دوسرے مقاموں میں رفع الیدین کے ترک پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ یہ نفی ہے۔ اور رفع الیدین کرنے پردلالت کرنے والی احادیث اثبات ہیں اور اثبات مقدم ہوتا ہے اور اس لیے بھی کہ رفع الیدین سنت ہے اور وہ اس کو ایک دفعہ یا کئی دفعہ ترک بھی کرتے ہیں لیکن اغلب اور اکثر عمل ہی سنت ہے اور وہ ہے رکوع کرتے اور اس سےسراٹھاتے وقت رفع الیدین کرنا“ تو جناب دیکھا آپ نے کہ ان بزرگوں نے کتنے واضح اور واشگاف الفاظ میں رکوع والے رفع الیدین کو سنت قراردیاہے تو مقام غور ہےکہ قاری صاحب کو ان کے اس روایت کو صحیح کہنے والے فیصلہ کو نقل کرنے سے آخر فائدہ؟
3۔ رہاحضرت العلامہ احمد شاکر رحمۃ اللہ علیہ صاحب کاقول (وما قالوه في تعليله ليس بعلة)تو وہ ان کی اپنی رائے ہے اور ادھر دوسرے محدثین اپنی بیان کردہ علتوں کو علتیں قراردیتے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ وہ ان علتوں کو ذکر کرتے اور بادلائل ثابت کرتے کہ ان میں کوئی ایک علت بھی واقع میں علت بننے کے قابل نہیں مگر اس مقام پر انہوں نےایسا نہیں کیا ہم قاری صاحب سے پوچھتے ہیں کہیں ان کا ”غیر مفسر“والااعتراض اس مقام پر بھی تو وارد نہیں ہورہا؟
قاری صاحب کا ایک مشورہ اور اس کا حال:
مندرجہ بالاتین بزرگوں کامندرجہ بالافیصلہ نقل کرنے کے بعد قاری صاحب لکھتے ہیں”مولاناصاحب اگر کوئی حوالہ پیش کرنا ہوتوپہلے اپنے بڑوں کی طرف بھی نظر کر لیاکرو میرایہ مشورہ ہےگرقبول افتدزہے عزوشرف۔ “(قاری صاحب کا رقعہ نمبر 5 ص 11)
1۔ اولاً:قاری صاحب! بندہ کا کوئی ایک حوالہ ہی پیش فرمادیں جس کی ان تین بزرگوں میں سے کسی ایک ہی نےتغلیط اورتردید کی ہوباقی ان تین بزرگوں کاپہلے مذکورہ بارہ ائمہ محدثین کے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ والی روایت کو ناقابل
|