مفہوم بیان کرنے کے سیاق میں وارد ہی نہیں۔
(كَمَا لَا يَخْفيٰ عَليٰ اَهْلِ الْعِلْمِ)
” جیسا کہ اہل علم سے پوشیدہ نہیں“۔
3۔ وثالثاً: صاحب رسالہ فرماتے ہیں:
نیز علامہ سیوطی رحمۃ اللہ علیہ اپنے رسالہ المصابیح میں اسی مفہوم کی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ (ص 16)
حضرت المؤلف کی خدمت میں درخواست ہے کہ علامہ سیوطی کی وہ عبارت پیش فرمائیں جس میں انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منقولہ (نِعْمَ البِدْعَةُ هَذِهِ) کے مفہوم میں بیس رکعات اور اس نماز کی رات کے ابتدائی حصہ میں ادائیگی کے شامل ہونے کی طرف اشارہ فرمایا ہے۔
4۔ ورابعاً:صرف علامہ قسطلانی کی عبارت (جو واقع کے بھی خلاف ہے) دیکھ کر اس میں بیان کردہ چیز کو محدثین کی طرف منسوب کرنا درست نہیں۔
اس لیے مصنف صاحب کا فرض ہے کہ وہ محدثین کے وہ اقوال پیش فرمائیں جو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے منقولہ میں لفظ بدعت کے تین باتوں پر مشتمل ہونے پر دلالت بھی کرتے ہوں ورنہ اپنے دعویٰ”محدثین کے نزدیک یہ بدعت کا لفظ تین باتوں پر مشتمل ہے“ پر نظر ثانی فرمائیں۔
5۔ مدینہ منورہ کا تعامل:
حضرت المؤلف لکھتے ہیں:
”مدینہ منورہ کا تعامل تو گذشتہ روایات نے صاف بیان کردیا الخ۔ “(ص 16)
سابقہ روایات میں جو کچھ بیان ہوا اس پر نیز خود ان روایات پر کلام گزرچکا ہے جس کا ماحصل یہ ہے کہ بیس رکعات نماز تراویح کو خلفاء راشدین اربعہ میں سے کسی خلیفہ راشد کی سنت قراردینا کسی ایک دلیل سے بھی ثابت نہیں اورنہ ہی بیس رکعات
|