جب کہ ان پانچ میں سے کچھ بزرگوں کا بیس رکعات اختیار کرنا ثابت ہی نہیں۔ پھر ان چند بزرگوں کا بیس رکعات اختیار کرنا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے ان کو یا کسی اور کو بیس رکعات پڑھنے پڑھانے کا حکم دینے کی بھی دلیل نہیں یقینی اور ناقابل تردید دلیل ہونا تو دور کی بات ہے پھر مصنف صاحب کے اس طرز استدلال کو لے کر کوئی صاحب کہہ سکتے ہیں کہ جب حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعض اصحاب خاص کا بیس رکعات کو اختیار کرنا ناقابل تردیددلیل ہے اس بات کی کہ انھوں نے یقیناً بیس رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا تو حضرت علی رضی اللہ عنہ بھی تو آخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب خاص سے تھے تو ان بیس رکعات پڑھنے کا حکم دینا کیوں ناقابل تردید دلیل نہیں اس بات کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً بیس رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا؟نیز حضرت عمر رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب خاص سے تھے اور گیارہ رکعات پڑھانے کا حکم دینا ان سے ثابت ہے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ حکم آخر کیوں ناقابل تردید دلیل نہیں اس بات کی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے یقیناً گیارہ رکعات پڑھنے کا حکم دیا تھا؟
پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے گیارہ کا حکم دینا ثابت ہے جب کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ سے بیس کا حکم دینا ثابت ہی نہیں کما ولما تقدم حضرت المؤلف نے اس قسم کے دلائل، قرائن اور مؤیدات کا علمی دنیا میں ذرہ وزن نہیں بلکہ یہ تو اس قابل ہی نہیں کہ انہیں دلائل، قرائن اور مؤیدات ایسے ناموں سے موسوم کیا جائے فتدبر۔
10 اہل مکہ کا تعامل:
حضرت المؤلف فرماتے ہیں:
(روى محمد بن نصر من طریق عطاء قال أدركتهم فی رمضان یصلون عشرين ركعة و ثلاث ركعات الوتر)
”(محمد بن نصر نے عطاء کے طریق سے روایت کی ہے کہ وہ فرماتے ہیں میں
|